حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولوی مامد کلشی نژاد نے شہر ارومیہ میں "مکتب جنرل قاسم سلیمانی میں اقوام و ادیان" کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: استکباری محاذ جانتا ہے کہ وہ مزاحمتی محاذ کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتا اس لئے اس کی پوری کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان وحدت اسلامی کو پارہ پارہ کر دے۔
انہوں نے کہا: مغربیوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ شیعہ اور اہل سنت کے درمیان اختلافات ایجاد کریں اور انہوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک شدت پسند گروہ تشکیل دیا اور اس گروہ نے شیعوں کے مراجع تقلید اور اسی طرح اہل سنت کے مقدسات کی توہین کی۔
انہوں نے مزید کہا: ایران میں شیرازی گروپ اپنے آپ کو شیعوں کا خالص ترین گروہ سمجھتا ہے جب کہ وہ شیعہ اور اہل سنت کے مقدسات کی توہین کرتا ہے۔ اس گروہ کے رہنماؤں میں ایک شخص کو کویت میں گرفتار کیا گیا اور اسے سزائے موت کا حکم سنایا گیا لیکن برطانیہ حرکت میں آ گیا اور اسے آزاد کروا کر لندن لے گیا۔
شہر ارومیہ کے امام جمعہ نے کہا: لندنی شیعہ فلسطین اور مزاحمتی محاذ کی ہر قسم کی حمایت اور امداد کو حرام سمجھتے ہیں لیکن استکباری محاذ کے مقابلے میں ساکت ہیں۔
انہوں نے کہا: امریکیوں نے داعش کو اہل سنت کے نام پر وجود بخشا۔ انہوں نے گروہِ داعش کو صرف چند سالوں کے لئے وجود میں نہیں لایا تھا بلکہ ان کا ارادہ تھا کہ وہ ممالک میں حکومت کریں اور صہیونیوں کی خواہش کے مطابق عراق اور شام کے نام پر ایک حکومت قائم کریں حتی کہ انہوں نے اس گروہ کے کمانڈر کے انتخاب میں بھی کوشش کی کہ وہ بداخلاق ترین شخص کو سامنے لائیں تاکہ اس طرح اسلام کو زیادہ سے زیادہ بد نام کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا: سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے گروہ داعش پر سرمایہ کاری کی اور ترکی، سعودی عرب، اردن، امارات، امریکہ، فرانس، اسرائیل اور دیگر ممالک نے گروہ داعش کی ہر ممکنہ حمایت کی لیکن اس کے باوجود مزاحمتی محاذ نے ان درندوں کو خطے سے نکال باہر کیا۔
مولوی کلشی نژاد نے گروہ داعش کے جرائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: اس دہشت گرد گروہ نے سر عام اعلان کیا کہ وہ شیعہ اور دیگر اقوام و مذاہب کا قتل عام کرنا چاہتا ہے اور اس گروہ نے مذہب اسلام کے پیروکاروں کے مشرک ہونے کے متعلق مقالات اور مضامین بھی لکھے لیکن جنرل سلیمانی اور ان کے دوستوں نے ان کے منحوس افکار کو پنپنے نہیں دیا۔ جنرل قاسم سلیمانی نے لوگوں کو سمجھایا کہ ہمیں قوم و مذہب سے بالاتر ہوکر لوگوں کی نجات کی فکر کرنی چاہیے۔