۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
مدیریت حوزه علمیه خواهران مازندران

حوزہ / مدرسہ علمیہ صدیقہ طاہرہ (س) میں شعبۂ ریسرچ کی سربراہ نے کہا: تحقیق حوزہ علمیہ اور تمام علوم کا لازمی جزو ہے کیونکہ اس کے بغیر علم گویا جمود کا شکار ہے اور وہ سوالات کے جوابات دینے کے قابل نہیں ہو سکتا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے شہر نوشہر میں مدرسہ علمیہ صدیقہ طاہرہ (س) کے شعبۂ ریسرچ کی سربراہ محترمہ شادی حسنی نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ایک محقق کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی انتھک کوشش اور محنت ہوتی ہے کیونکہ اس کے بغیر علم گویا جمود کا شکار ہے اور وہ سوالات کے جوابات دینے کے قابل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا: علوم دینیہ بنی نوع انسان کی ابدی سعادت کی طرف رہنمائی کے لیے ہیں۔ شروع سے لے کر اب تک مختلف ادوار میں حالات اور انسان کی فہم کی سطح کے مطابق طرح طرح کے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں جن کا جواب تحقیق کے سوا نہیں مل سکتا۔

محترمہ شادی حسنی نے مزید کہا: موجودہ دور میں مختلف وسائل جیسے کتب کی اشاعت، مضامین کی طباعت، ورچوئل اسپیس اور معلومات کے تبادلے کی تیز رفتاری کی وجہ سے لوگوں کے باہمی رابطوں میں بھی بہت تیزی دیکھنے کو آئی ہے۔ لہذا انہی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے آج طلباء کو بھی مفید علمی اور تحقیقی مواد کو وسیع پیمانے پر اور مختلف زبانوں میں پھیلانے کا بہترین موقع حاصل ہے۔

انہوں نے کہا: تحقیق کے شعبے میں ممتاز اساتید اور پروفیسرز کی موجودگی اور پرنٹنگ اور ڈیجیٹل فارمیٹس میں کتابوں کی اشاعت اور جامع اور مکمل سافٹ ویئرز کے ساتھ ساتھ مختلف رسمی و قانونی ویب سائٹس پر موجود معتبر ذرائع تک رسائی کی آسانی کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحقیقی میدان میں بہت اچھے اقدامات انجام دئے گئے ہیں۔

مدرسہ علمیہ صدیقہ طاہرہ (س) میں شعبۂ ریسرچ کی سربراہ نے آخر میں کہا: علمی تحقیقی پروگرامز اور خصوصی علمی مطالب کی اشاعتوں اور علمی نشستوں کے انعقاد وغیرہ سے طلباء کو تحقیقی امور انجام دینے میں مدد ملے گی۔ بعض لوگوں کی رائے کے برعکس جو حوزاتِ علمیہ کو صرف تلاوتِ قرآن کریم اور دعا وغیرہ پڑھنے کا مقام سمجھتے ہیں، آج حوزہ علمیہ خواہران کا ثمرہ محترمہ مجتہدہ امین (استاد سیدہ نصرت امین (1895-1983ء) ایک مشہور اصفہانی فقیہہ، عارفہ، حکیمہ اور مفسرۂ قرآن تھیں جنہوں نے اپنے وقت کے علماء اور مراجع تقلید کی تائید سے اجتہاد اور نقلِ روایت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ "بانوی امین" کے نام سے معروف تھیں اور اکثر اپنی تحقیقات اور آثار کو "بانوی ایرانی" یا "بانوی اصفہانی" کے نام سے شائع کرتی تھیں) جیسے ممتاز اور محقق افراد کی صورت میں سب کے سامنے ہے جن کی کامیابی اور موفقیت کو ہم معاشرے میں مشاہدہ کر رہے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .