حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے ایام شہادت امیرالمومنین علیہ السلام کی مناسبت سے جاری اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے عالی مقام اور عظیم حیثیت کو مدنظر رکھا جائے تو 19رمضان المبارک کی ضربت کی سنگینی کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔
نماز فجر کے دوران ابن ملجم کی ضربت سے حالت سجدہ میں آپ زخمی ہوئے تو زمین اور آسمان کے درمیان یہ ندا بلند ہوئی "تھدمت واللہ ارکان الھدی" خدا کی قسم ہدایت کے ستون منہدم ہو گئے۔
امام حسن علیہ السلام کے مطابق "ایک عظیم ہستی کو اس رات شہید کیا گیا جس رات قرآن مجید نازل ہوا"۔ حضرت عیسی حکم خدا سے آسمان پر اٹھائے گئے، یوشع بن نون قتل ہوئے، خدا کی قسم بعد والوں میں کوئی ان کے مقام و مرتبہ کو نہ پا سکے گا۔ اسی طرح حضرت عائشہ کا فرمانا کہ "اب اہل عرب جو چاہیں کریں اب کوئی نہیں جو انہیں روکے ٹوکے"۔
فضائل و مناقب اپنی جگہ، خانہ کعبہ میں ولادت اور مسجد کوفہ میں شہادت جیسی فضیلت اور امتیاز صرف امیر المومنین علیہ السلام کے حصے میں آیا۔ چنانچہ علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا "کسے را میسر نہ شد ایں سعادت ۔۔ بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت"۔
امیر المومنین علیہ السلام کی ذات کا ایک منفرد پہلو عدل و انصاف کا نفاذ ہے۔ جو انہیں دنیا کے تمام سابقہ اور آئندہ حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی اہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپ علیہ السلام کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپ کو عدل سے پہچاننے لگے۔
علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ امیر المومنین علیہ السلام نے سیاسی ، معاشی، سماجی ،تہذیبی اور تعلیمی وغیرہ تمام میدانوں میں جو اقدامات اور اصلاحات کیں وہ تمام ادوار اور تمام ریاستوں کے لیے نمونہ عمل ہیں۔
انہوں نے حکمرانی کو خدمت کا ذریعہ اور خداکی طرف سے عطا کردہ امانت قرار دیا اور اس کی ایسے ہی حفاظت کی جس طرح خدا کی امانتوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگردنیا کے تمام حکمران عدل علی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نظام آگے بڑھا ئیں بالخصوص مسلمان ممالک اگر عدل علی کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں تو پورے دنیا سے ظلم و جبر اور زیادتی وتجاوز کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے موجودہ ابتر سیاسی ماحول میں ایسے رہنما اصولوں پر عمل درآمد نہایت لازم و ناگزیر ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل بھی شفاف، منصفانہ، عادلانہ اور غیر متنازعہ نظام حکومت میں مضمر ہے۔ جس میں امیر المومنین علیہ السلام کے مثالی دور کے اصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے ظلم کا نام ونشان مٹایا جائے، ناانصافی اور تجاوز کا خاتمہ کیا جائے،بنیادی شہری، انسانی،مذہبی اور شہری و آئینی حقوق دستیاب ہوں، طبقاتی تقسیم اور تفریق کی بجائے مساوات کا نظام رائج ہو، اتحادووحدت اور اخوت ورواداری کا عملی مظاہرہ ہو، انتہا پسندی، جنونیت اور فرقہ وارانہ منافرت کا مکمل خاتمہ ہو، معاشی نظام قابل تقلید ہو اور معاشرتی سطح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اتنی بلند ہوجائے کہ دنیا کے دوسرے معاشرے اس کی پیروی کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔