۱۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۹ شوال ۱۴۴۵ | May 8, 2024
اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین سیدساجد علی نقوی

حوزه/ حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی نے نئے عیسوی سال کے آغاز پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ سال گذشتہ بھی ارض پاک کے باسیوں کے لئے ناامیدی‘ عدم تحفظ‘ بے چارگی‘ غربت‘ افلاس‘ پسماندگی اور ذہنی اذیتوں کے سوا کچھ نہ دے پایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپوڑٹ کے مطابق سربراہ شیعہ علماء کونسل پاکستان حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی نے نئے عیسوی سال کے آغاز پر اپنے خصوصی پیغام میں کہا ہے کہ سال گذشتہ بھی ارض پاک کے باسیوں کے لئے ناامیدی‘ عدم تحفظ‘ بے چارگی‘ غربت‘ افلاس‘ پسماندگی اور ذہنی اذیتوں کے سوا کچھ نہ دے پایا۔ خود کش حملوں‘ بم دھماکوں‘ ٹارگٹ کلنگز اور فتنہ انگیزی جیسے مسائل کے گرداب اور مشکلات کے نرغے میں گھرے مجبو ر و بے بس عوام اپنے دکھوں کے مداوے کے لئے کسی مسیحا کے منتظر دکھائی دیئے۔ غم و اندوہ میں ڈوبے اور حسرت و یاس کی تصویر بنے یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ آخر کس وقت پاک سرزمین سے بدامنی و دہشت گردی‘ قتل و غارتگری و فتنہ و فساد‘ مہنگائی و غربت‘ بے روزگاری ‘ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے عذاب کا خاتمہ ہوگا اور لاتعداد مسائل میں گھرے عوام اور خاندان خط غربت سے بھی نیچے گزاری جانے والی دردناک زندگی سے آزادی سے حاصل کریں گے۔

حجت الاسلام والمسلمین سید ساجد علی نقوی نے کہا کہ ملک کی آزادی‘ خود مختاری ‘ سالمیت کے دفاع کے لئے عوام کی امنگوں کے مطابق اور نظریہ پاکستان کی اساس کی روشنی میں پالیسیاں مرتب کی جائیں گی اور بیرونی مداخلت کے خاتمے اور استعماری طاقتوں کے چنگل سے نجات حاصل کی جاسکے گی۔ان کی امیدوں کی برآوری ‘ ان کی مشکلات کے خاتمے اور ملک کی ترقی و خوشحالی کی نوید لئے سورج کب طلوع ہوگا؟

سربراہ شیعہ علماء کونسل پاکستان نے مزید کہا کہ رسم دنیا ہے کہ جب نئے سال کا آغاز ہوتا ہے تو ہر ملک کے حکمران‘ ہر سیاسی و دینی جماعت کے قائدین‘ تمام سماجی و انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذمہ داران اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد تجدید عہد کے بیانات جاری کرتے ہیں کہ گذشتہ سال ہونے والی کوتاہیوں اور غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے آئندہ سال احتیاط کریں گے لیکن جب سال کا اختتام ہوتا ہے تو صورت حال پہلے سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ وطن عزیز گذشتہ سال بھی متعدد بحرانوں کی زد میں رہا ہے جن میں سے ہمیشہ کی طرح دہشت گردی کا بحران سرفہرست رہا جس سے خاندان کے خاندان نگل لئے لیکن اس کے باوجود ریاست کے ذمہ داروں کی طرف سے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات نہیں ہوئے۔ نہ تو دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو توڑا جاسکا‘ نہ ہی بڑے بڑے سانحات کے پس پردہ حقائق منظر عام پر لائے گئے اسی طر ح دہشت گردوں کے سرپرستوں کو بھی نے نقاب نہ کیا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھاکہ  گذشتہ سال میں بھی امت مسلمہ کا وقار اور حیثیت مجرو ح رہی۔ عالم اسلام اس وقت نام نہاد سپرپاورز کا تختہ مشق بن چکا ہے نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اسلام جیسے آفاتی دین کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے ساتھ جوڑنے کی کوششیں جاری ہیں حالانکہ مسلمان دنیا بھر میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اسلامی سربراہی کانفرنس جیسا ادارہ بھی موجود ہے لیکن امت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کے اقدامات تشنہ تکمیل ہیں

تبصرہ ارسال

You are replying to: .