۱۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۵ شوال ۱۴۴۵ | May 4, 2024
مولانا سید ابوالاعلی مودودی  وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے

حوزہ/ اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے زیر اہتمام مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی قلمی،دینی و سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے سیمینار کا انعقاد کیا گیا، سمینار سے خطاب کرتےہوئے مقرریں نے کہا کہ سید مودودی ؒ کے لٹریچر سے وابستہ لوگ آج بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اُن کے وژن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور وه اپنے دور میں ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ کے مطابق  اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے زیر اہتمام مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒ کی قلمی،دینی و سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیمینار میں معروف صحافی مجیب الرحمن شامی،سجاد میر،حفیظ اللہ نیازی،عبدالغفار عزیز،وقاص انجم جعفری،زکراللہ مجاہد اور دیگر مہمانان نے شرکت کی۔مہمانان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سید مودودی ؒ نے اپنی تحریروں کے ذریعے نوجوان ذہنوں میں انقلاب برپا کیا۔ قیام پاکستان کے وقت بھی سید مودودی نے اپنے قلم کے ذریعے دو قومی نظریے کو تقویت دی اور رائے عامہ ہموار کیا۔ انہوں نے اسلام کو بطور نظام متعارف کرایا۔ سید مودودی ؒ کے لٹریچر سے وابستہ لوگ آج بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور اُن کے وژن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔

سجاد میر نے کہا کہ سید مودودی ؒ صرف اپنے دور کے مجدد نہیں بلکہ آج بھی اُن کی تحریریں امت مسلمہ کے لئے نوشتہ دیوار ہیں۔ وہ ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ سید مودودی ؒ نے اپنی تحریروں کے ذریعے مغربی سیلاب کے سامنے بند باندھا اور نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت کی اور اُن کو معاشرے کے صالح نوجوان بنائے۔

جنرل سیکرٹری اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان عرفان حیدر نے کہا کہ سید مودودی نے اسلامی حکومت کے بنیادی نظریے اور اس کے نمایاں خدوخال کو لوگوں کے سامنے کھول کر رکھا تاکہ جس چیز کی طلب اُن کے اندر پیداہوگئی ہے ا س کی نوعیت سے وہ خوب اچھی طرح آشنا ہوجائیں کہ کوئی قیادت کل کسی وقت کوئی مذہبی کھلونا دے کر انہیں اس دھوکہ میں نہ ڈال دے کہ وہ جو کچھ چاہتے تھے وہ انہیں حاصل ہوگیا۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے احیائے اسلام، اسلامی ریاست اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے جو فکر اور تحریر عام کی اس نے لاتعداد ذہنوں کو متاثر کردیاتھا۔ انسان اور انسانیت کسمپرسی سے دوچار تھی، مفاد پرست سیاسی نظام، استعمار ی نظام، انسانوں کو غلام بنائے ہوئے ہے۔

عرفان حیدر کا مزید کہناتھا کہ مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودی ؒ استقامت کے پہاڑ تھے، وہ شمع محفل تھے جس کی روشنی اور نور شفقت سب پر برابر پڑتی تھی، وہ نہایت خوش طبع اور ذہنوں کو متاثر کرنے والے ملائم اور مدلل بات کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے، اُن کی تحریروں،فکر اور تفسیر قرآن کریم تفہیم القرآن نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا اُن کی وفات کو 39سال بیت گئے لیکن اُن کی فکر،تحریک، تحریر یں زندہ ہیں اس لیے کہ اُن کی فکر قرآن و سنت سے جڑی ہوئی ہے۔ عالم کفر اور استعماری قوتیں سیکولرازم، لبرل ازم اور مغربی سرمایہ دارانہ طاقت سے پیش قدمی روکنا چاہتے ہیں لیکن ناکام ہوجائیں گے۔

 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .