۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حضرت آیت الله جعفر سبحانی

حوزہ/ مرجع تقلید آیت الله العظمی جعفر سبحانی کی جانب سے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) کے 1400ویں سال شہادت کے موقع پر بیان جاری کیا گیا.

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق مرجع تقلید آیت الله العظمی جعفر سبحانی کی جانب سے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) کے ۱۴۰۰ویں سال شہادت کے موقع پر بیان جاری شده بیان میں آیا ہے:

مولود کعبہ اور شہید محراب چودہ صدیاں بعد

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام نے کعبہ معظمہ میں آنکھ کھولی اور مسجد کوفہ کے محراب میں جام شہادت نوش کرتے ہوئے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بقول فارسی شعر کے کہ «نازم به حسن مطلع، و حسن ختام او» یعنی اس کے طلوع کرنے(ولادت) کے مقام پر اور ختم یعنی غروب ہونے(شہادت) کے انداز پر فخر ہے۔

ميسّر نگردد به كَس این سعادت *** به کعبه ولادت به مسجد شهادت

کسی اور کو یہ سعادت نصیب نہ ہوئی *** کعبہ میں متولد ہونا اور مسجد میں شہید ہونا

اس جاری سال کے ماہ مبارک رمضان(۱۴۴۰ھ) میں اس پیشوای عظیم الشان کی شہادت کو ٹھیک ۱۴صدیاں گذر رہی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان قدر کے مبارک شب و روز میں جو امیرالمومنین(ع) کی شہادت کے دنوں کے ساتھ ہمزمان ہیں،  آپ(ع) کی یاد میں مخصوص پروگرامز منعقد کریں۔

امیرالمومنین علیہ السلام کے بلند مقام کی شناخت کے لئےاسلامی محققین کے توسط سے مختلف میگزین، کتابیں اور موسوعات لکھے گئے ہیں حتی عیسائیوں کے ایک گروہ نے بھی آنحضرت(ع) کی زندگی پر قابل قدر تحقیقات انجام دی ہیں اور سب نے اپنی توان کی حد تک کوشش کی ہے کہ اس ولی خدا(ع) کی زندگانی کو بیان کر سکیں اور ان کے مناقب و فضائل اور نہایت قیمتی اور بے مثل خدمات کو آپ(ع) کے بچپن سے لے کر آخر عمر تک کے مراحل میں بیان کرنے کے لئے کئی ایک کانفرنسز کا بھی انعقاد کیا گیا اور سب ہی اس بات کو جانے ہیں کہ اس  سمندرِ فضیلت  کے ساحل تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے القاب جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں وہ اس امام ہمام(ع) کے معنوی مقامات کے بعض حصوں کو ہی بیان کر سکتے ہیں۔

اہلسنت کی احادیث میں آنحضرت(ع) کی خصوصیات:

۱۔ وہ امیرالمؤمنین، سرور مسلمین، وصیوں کے خاتم، خاتم پیغمبر(ص) پر سب سے پہلے ایمان لانے والے، الہی وعدوں پر قائم باوفا ترین شخص، احکام الہی اور قضای الہی کو جاننے والا دانا ترین فرد، علم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا دروازہ، پرچم هدايت، منبع نور، کعبہ کو بت و بت پرستی سے پاک کرنے والا، احکام الہی کے اجراء میں کسی سے خوف نہ کھانے والا، حالت نماز میں خانۂ خدا میں شہادت کے مرتبہ پر فائز ہونے والا۔

آپ(ع) کی شخصیت کے تعمیراتی عناصر:

ماہرین نفسیات کے بقول ہر انسان کی شخصیت تین مہم عامل کی طرف پلٹتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک انسان کی شخصیت کی تشکیل میں نہایت ہی اثرانداز ہوتی ہے اور یہ تین عامل یہ ہیں: وراثت، ثقافت اور محیط زندگی۔ امام علی علیہ السلام بھی ایک بشر ہونے کے ناطے اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ہم صرف پہلے مورد میں ہی بحث کر پائیں گے اور بقیہ دو مورد میں چونکہ ہامری وسعت میں نہیں کہ اس سے متعلق بحث کر پائیں لہذا اس سے صرف نظر کریں گے۔

امام(ع) اور ان کے ماں باپ کی طرف سے وراثت:

آپ(ع) کے والد گرامی حضرت ابوطالب جو سید الاباطح سے معروف تھے۔ آپ سرور مکیان اور پیشوای ہاشمیان تھے جن کی شخصیت ایسی تھی کہ جنہوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کی سرپرستی کو چالیس سال تک ذمہ داری سے انجام دیا اور تعلیمات توحیدی کی حفاظت اور ان کے انتشار میں نہایت ہی عقیدت اور فداکاری کا مظاہرہ کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ کی مدح و ستائش میں ان کے زمزمے اور ان کے اپنے بھتیجے کی رسالت پر گہرے ایمان کو بیان کرتی ہے کہ جسے ایک شعر میں بیان کیا جا سکتا ہے:

ليعلم خيارُ الناس انّ محمداً *** نبيّ كموسى خطه فى الكتُب

بہترین افراد کو معلوم ہونا چاہئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم کی طرح نبی خدا ہیں۔

آپ کی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ آپ بعثت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ سے پہلے دین ابراہیم کی پیرو تھیں۔ درد زائمان کے وقت مسجد الحرام کے پاس آئیں اور اپنے آپ کو کعبہ کی دیوار سے سہارا دیا اور خدا سے دعا کی کہ ان کے شکم میں موجود پچے کی ولادت میں آسانی پیدا کرے۔ اس وقت حضرت علی(ع) کی والدہ گرامی معجزہ کی صورت میں خانہ کعبہ میں داخل ہوئیں اور وضع حمل کیا اور فاطمہ کے اس فرزند کا لقب ’’ولید الکعبہ‘‘(مولود کعبہ) طے پایا۔

حضرت علی علیہ السلام کی زندگانی حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر میں:

پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ قحطی کی بنا پر حضرت علی علیہ السلام کو اپنے گھر لے گئے اور ان کی تربیت کو اپنے ذمہ لے لیا۔ امیرالمومنین(ع) اپنی اس زندگی کے ایام کو خطبۂ قاصعہ میں اس طرح بیان کرتے ہیں:

وَ قَدْ عَلِمْتُمْ مَوْضِعِی مِنْ رَسُولِ ال‍لّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ بِالْقَرَابَةِ الْقَرِیبَةِ، وَ الْمَنْزِلَةِ الْخَصیصَةِ. وَضَعَنِی فِی حِجْرِهِ وَ أَنَا وَلَدٌ یضُمُّنِی إِلَی صَدْرِهِ، وَ یکْنُفُنِی فِی فِرَاشِهِ، وَ یمِسُّنِی جَسَدَهُ، وَ یشِمُّنِی عَرْفَهُ. وَ كَانَ یمْضَغُ الشَّیءَ ثُمَّ یلْقِمُنِیهِ۔

’’تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدرومنزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا میں بچہ ہی تھا کہ رسول نے مجھے گود میں لے لیا تھا۔اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے۔بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتےتھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے۔پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے‘‘۔

حضرت علی(ع) غارِ حرا میں:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کا امام(ع) کی پرورش میں لطف و کرم جاری تھا یہاں تک کہ آپ(ص) حجرت علی(ع) کو غارِ حرا میں اپنے ساتھ لے کر گئے۔ حضرت امیرالمؤمنین(ع) خود اس زندگی کےحصے کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’وَ لَقَدْ كَانَ یجَاوِرُ فِی كُلِّ سَنَة بِحِرَاءَ فَأَرَاهُ، وَ لایرَاهُ غَیرِی. وَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَنَّةَ الشَّیطَانِ حِینَ نَزَلَ الْوَحْی عَلَیهِ صَلَّی اللهُ عَلَیهِ وَ آلِهِ فَقُلْتُ: یا رَسُولَ ال‍لّهِ مَا هذِهِ الرَّنَّةُ؟ فَقَالَ: «هذَا الشَّیطَانُ قَدْ أَیسَ مِنْ عِبَادَتِهِ. إِنَّكَ تَسْمَعُ مَا أَسْمَعُ، وَ تَرَی مَا أَرَی، إِلاَّ أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِی، وَ لكِنَّكَ لَوَزِیرٌ۔

’’ہر سال چند مہینے غار حرا میں خلوت فرماتے تھے جبکہ صرف میں ہی انہیں دیکھتا تھا کسی اور کو پتہ نہیں ہوتا تھا۔میں نے پیغمبر(ص) پر وحی کے وقت شیطان کی چیخ کو سنا تو عرض کیا: اے رسولِ خدا (ص)! یہ چیخ کیسی تھی؟ آپ(ص) نے فرمایا: یہ شیطان ہے اس کی پرستش نہ ہونے کی وجہ سے نا امید اور مایوس ہوا ہے۔ اور جو کچھ میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو، اور جو کچھ میں دیکھتا ہو وہ تم بھی دیکھتے ہو صرف یہ کہ تم میرے وصی ہو‘‘۔

بعثت کے ابتدائی ایام میں ہی امام علی علیہ السلام ایک ایسے نوجوان ہیں جو مقامات معنوی کے اعتبار سے ایسے مقام پر فائز ہیں کہ جو فرشتوں کو دیکھتا ہے اور برزخ کی آوازوں کو سنتا ہے اور ایسے مقام پر فائز ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں: :«إِلاَّ أَنَّكَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ، وَلكِنَّكَ لَوَزِيرٌ وَإِنَّكَ لَعَلَى خَيْر» یعنی تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقینا خیر و بھلائی کی راہ پر ہو۔

آپ(ع) کے معنوی مقام،راہ خدا میں ان کا  مسلسل جہاد، زہد و تقویٰ، معارف و احکام خدا سے آشنائی اور والا مقام انسانوں کی تربیت، پیمان شکنوں کے ساتھ ان کی جنگ، اور اس جیسی ہزاروں مثالیں ہیں جو اس مختصر تحریر میں سمو نہیں سکتیں اور اس جگہ بس آپ کی شخصیت کے کلی نمونوں کو بیان کر کے ان کا شکر ادا کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے اس روحانی فضاکو ایجاد کیا ہے۔ امیدوار ہیں کہ اس مختصر تحریر کے کاتب کو خداوند متعال یوسف ِ زمان کے عاشقان میں سے شمار کرے اور لطف  ، الہی اس کے شاملِ حال ہو۔

 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .