۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی

حوزہ/ سربراہ تنظیم المکاتب نے تاخیر سے دعا قبول ہونے کے سلسلہ میں فرمایا: کبھی کبھی اللہ کو اپنے بندے کی دعا کا انداز اتنا پسند آتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ بندہ بار بار اس سے دعا مانگے اور کبھی کبھی بندہ جس چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے لیکن عالم الغیب پروردگار جانتا ہے کہ اس میں اس کی بھلائی نہیں ہے لہذا اس کی دعا کو قبول نہیں کرتا ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ بانی تنظیم المکاتب مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ کے بھتیجے جناب سید باقر عسکری میثم رضوی مرحوم کے پسماندگان کی جانب سے مرحوم کی مجلس ترحیم شب جمعہ ۲۷؍ جنوری کو بانی تنظیم المکاتبؒ ہال گولہ گنج میں منعقد ہوئی۔ مولوی سہیل مرزا متعلم جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے مجلس کا آغاز کیا ، بعدہ مولوی علی محمد نقوی، مولوی علی محمد معروفی، مولوی حسین عباس اور مولوی عامر عباس نے بارگاہ اہلبیتؑ میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیااور نظامت کےفرائض مولوی محمد صادق معروفی نے انجام دئیے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سیدصفی حیدر زیدی سکریٹری تنظیم المکاتب نے دعائے کمیل کے فقرات ’’اے میرے پروردگار، اے میرے پروردگار، اے میرے پرودگار! تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ تیری حقیقت کے واسطے اور تیری ذات مقدسہ اور اعلی ترین صفات و اسماء کے واسطے، میرے دن رات کے اوقات کو اپنی یاد سے معمور و آباد کر دے اور انہیں اپنی بندگی کی خدمت میں مصروف رکھے، اور میرے اعمال کو اپنی بارگاہ میں قبول کردے‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے فرمایا: شب جمعہ ہے، شب استغفار ہے، اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی رات ہے۔ روایات کے مطابق شب جمعہ میں ہر نیکی کا ثواب دوگنا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح ہر برائی پر عقاب بھی دوگنا ہو جاتا ہے۔لہذا ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئیے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہیں آپ ؐ نے فرمایا: دنیا و آخرت ساتھ ساتھ چلیں گی لیکن جب دونوں آپس میں ٹکرائیں گے تو میں آخرت کو اختیار کروں گا۔ حضورؐ کو اختیار دیا گیا کہ چاہے بادشاہ بن کر زندگی بسر کریں یا بندے بن کر عمر گذاریں۔ آپ نے بندگی کو اختیار کیا اور عبد ہونے کو پسند کیا۔

مولانا سید صفی حیدر زیدی نے فرمایا: کریم پروردگار سے دعا مانگنی چاہئیے کیوں کہ اس کریم سے دعا مانگنے سے صرف مستقبل ہی نہیں سنورتا بلکہ ماضی بھی سنور جاتا ہے۔ جس طرح دعا کے ذریعہ مستقبل میں نیک اعمال کی توفیق حاصل ہوتی ہے اسی طرح ماضی میں انجام دئیے گئے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ بانیٔ تنظیم المکاتب مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے جس طرح ملک میں تقلید کرنے اور خمس نکالنے کی جانب مومنین کو متوجہ کیا اسی طرح دعا کی جانب بھی مومنین کو توجہ دلائی۔ آپ ہر صبح زیارت عاشورا پڑھتے تھے۔ شب جمعہ دعائے کمیل پڑھتے تھے۔ میں نے آپ کے ہاتھوں میں اس وقت مفاتیح الجنان دیکھی جب عمومالوگ اس کتاب کا نام بھی نہیں جانتے تھے۔

سکریٹری تنظیم المکاتب نےفرمایا: حدیث کساء اور دعائے کمیل میں کوئی ٹکراؤ نہیںہے اور نہ ہی ایک پڑھنا دوسرے کے پڑھنے سے روکتا ہے۔ دعائے کمیل کا وقت شب جمعہ ہے اور حدیث کساء کا وقت معین نہیں ہے۔یہ جب جی چاہے پڑھیں شب جمعہ سے مخصوص نہیں ہے۔ جب ہم حدیث کساء پڑھتے ہیں تو ملائکہ ہمارے لئے استغفار کرتے ہیں۔ رسم اور دین الگ الگ ہیں ضروری نہیں کہ ہر رسم دین کے مطابق ہو ۔ مومنین کو کھانا کھلانا ثواب ہے لیکن دن معین کرنا دین میں نہیں ہے۔

سربراہ تنظیم المکاتب نے تاخیر سے دعا قبول ہونے کے سلسلہ میں فرمایا: کبھی کبھی اللہ کو اپنے بندے کی دعا کا انداز اتنا پسند آتا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ بندہ بار بار اس سے دعا مانگے اور کبھی کبھی بندہ جس چیز کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے لیکن عالم الغیب پروردگار جانتا ہے کہ اس میں اس کی بھلائی نہیں ہے لہذا اس کی دعا کو قبول نہیں کرتا ۔ اسی طرح ہمیں سلیقہ دعا پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ روایت میں ہےکہ حضورؐ کے سامنے ایک شخص مسجد میں آیا اور دعا مانگنے لگا تو آپ نے فرمایا: اس نے جلدی کردی۔ پہلے اللہ کی حمد کرے، اپنے گناہوں سے استغفار کرے ، محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیجے پھر دعا کرے۔ ہمارے پاس معصومین علیہم السلام کی تعلیم کردہ دعاؤں کا ذخیرہ ہے ۔ ہمیں دعا سازی کی ضرورت نہیں ہے۔

مولانا سید صفی حیدر زیدی نے فرمایا: ائمہ معصومین علیہم السلام نے جہاں ہمیں دعا تعلیم کی وہیں سلیقہ بھی تعلیم کیا کہ کیسے مانگیں اور کیا مانگیں اور کیا نہ مانگیں۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے دیکھا کہ ایک شخص خدا سے صبر کی دعا مانگ رہا ہے تو آپ نے فرمایاکہ تو تو نزول بلا کی دعا مانگ رہا ہے کیوں کہ صبر بلا پر ہوتا ہے۔ اس نے عرض کیا کہ پھر کیا دعا مانگیں تو آپ نے فرمایا: اللہ سے عافیت کی دعا مانگو۔ اسی طرح معصوم امام نے دیکھا کہ ایک شخص موت کی دعا مانگ رہا ہے تو امام ؑ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو نے آخرت کی تیاری کر لی ہے جو موت کی دعا مانگ رہا ہے۔ معصومین علیہم السلام نے طولانی عمر کی دعا تعلیم فرمائی ہے موت کی نہیں ۔ ہاں جب عمر گناہوں کی آماجگاہ بن جائے تو ایسے موقع پر موت کو زندگی پر فوقیت دی جیسا کہ دعائے مکارم اخلاق میں ہے۔ ’’خدایا! جب تک میری عمر تیری اطاعت میں بسر ہو مجھے زندہ رکھنا اور جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے تو میری روح قبض کر لینا۔ ‘‘

تبصرہ ارسال

You are replying to: .