تاریخ مدرسہ سلطان المدارس
-
قسط پنجم:
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف
حوزہ/ امجد علی شاہ اودھ نے ۱۸۴۷ء سے پہلے پرانے مدرسے کو نئے انداز میں قائم کیا ۔ نواب جنت آرام گاہ سعادت علی خان کے شاندار مقبر ہ کی وسیع عمارت میں مو لانا میر احمد علی ، مفتی محمد عباس، مولانا حامد حسین ، مولانا شیخ علی اظہر اور مولانا مرزا محمد علی جیسے علماء و مدرسین؛ اساتذہ کے عنوان سے مقرر کئے گئے ۔
-
قسط چہارم:
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف
حوزہ/ حضرت ثریا جاہ امجد علی شاہ کی ولادت اوائل ماہ مبارک۱۲۱۵ھ میں حضرت محمد علی شاہ کی خاص محل جہاں آرابیگم عرف کھیتو بیگم مخاطب بہ نواب ملکہ بنت نواب امام الدین خاں نبیرہ وزیر الممالک نواب اعتماد الدولہ قمر الدین خاں وزیر حضرت محمد شاہ شہنشاہ دہلی کے بطن سے نواب سعادت علی خاں کے عہد فرما ں روائی میں ہوئی ملکہ آفاق کی پھوپھی شمس النساء بیگم نواب آصف الدولہ بہادر مرحوم سے منسوب تھیں ۔
-
قسط سوّم:
کتاب " تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف
حوزہ/ مدرسہ سلطان المدارس ہی شاہان اودھ کا وہ زریں عمل ہے جس نے علم کے دریا تمام ہندوستان کے ہر گوشے میں بہا دئیے تمام آثار اس خاندان اجتہاد کے علما ء کی زبردست روحانیت کا نتیجہ ہیں۔
-
قسط دوّم:
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف
حوزہ/ انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی :اس سینٹر کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔
-
قسط اوّل:
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف
حوزہ/ مدرسہ سلطانیہ کا آغاز، نواب سعادت علی خاں کے مقبرہ سے ہوا، اس ضمن میں عزیز ؔمرحوم فرماتے ہیں: نواب سعادت علی خاں کے مقبرہ میں اس مدرسہ کاآغاز ہوا اور سید العلماء کی تجویز سے مدرسین کا انتخاب ہوا۔
-
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس" پر سرسری نظر
حوزہ/ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ بھی انہی مستحکم قلعوں میں سے ایک قلعہ ہے جو اودھ کا سب سے پہلا شیعہ مدرسہ ہے۔ہندوستان میں اپنی شان کے اعتبار سے واحد دینی درسگاہ ہےجو اودھ کے زمانۂ شاہی میں ’’مدرسۂ شاہی ‘‘ او ر ’’مدرسۂ سلطانی ‘‘ کے نام سے پہچانا جاتا تھا اوراِس وقت یہ مدرسہ، مدرسہ سلطانیہ اور جامعہ سلطانیہ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔