۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
کتاب "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس " کا مختصر تعارف

حوزہ/ مدرسہ سلطان المدارس ہی شاہان اودھ کا وہ زریں عمل ہے جس نے علم کے دریا تمام ہندوستان کے ہر گوشے میں بہا دئیے تمام آثار اس خاندان اجتہاد کے علما ء کی زبردست روحانیت کا نتیجہ ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انڑ نیشنل نور مائکروفلم سینٹر دہلی کے اہم کاموں میں سے ایک کام کتاب"تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ" کی اشاعت ہے جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اور یہ کتاب بہترین سر ورق کے ساتھ مذکورہ مرکز میں زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے؛ اس کتاب میں بالتفصیل مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ کو تحریر کیا گیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف الحاج مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی صاحب قبلہ نے اس کام میں رات دن زحمت کرکے مدرسہ کی بابت اپنے انتہائی خلوص کا ثبوت دیا ہے۔ 

مدرسہ سلطانیہ کے محرک و مرغب جناب سید العلماء سید حسین صاحب علیین مکان: آصف الدولہ ولی کا آخری دورا ور جناب غفران مآب کی کہولت تھی کہ ۱۴/ ربیع الثانی۱۲۱۱  ہجری میں آپ کی ولادت ہوئی، آپ سترہ سال کی قلیل مدت میں تکمیل تحصیل کر کے نہ صرف رتبہ اجتہاد پر فائز ہو چکے تھے بلکہ’’ تجزی فی الا جہتاد‘‘  میں ایک رسالہ کی تصنیف بھی شروع فرمائی اور اس کے بعد’’  حکم ظن رکعتین اولین‘‘ نامی رسالہ بھی قلم بند فرمایا ۔ حضرت غفران مآب نے تحسین فرمائی کہ یہ متانت طرز تحریر اور اسلوب تقریر نوکار کا نہیں پختہ کا ر کا معلوم ہوتا ہے۔مگر سوء ِ مزاج کے باعث پورا رسالہ جناب غفران مآب کی سماعت سے نہ گزر سکا ۔ یہ خدمت جناب رضوان مآب کے سپرد ہوئی کہ وہ رسالہ ملا حظہ فر ماکر اسکی کیفیت جناب غفران مآب سے عرض کریں ۔ جناب رضوان مآب نے تعمیل ارشاد کی لیکن چونکہ سید العلما ء اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے اس لئے آپ نے پسند نہیں فرما یا کہ اپنے تبحراور لیاقت کی کیفیت کومنظر عام پرلائیں ۔
تکمیل تحصیل کے بعد جناب غفران مآب سے براہ راست بھی اور جناب رضوان مآب کے واسطہ سے بھی اجازہ ملا ۔۲۳/رجب ۱۲۶۸ھ کی ایک تحریر سے اشارہ ملتا ہے کہ طلاب کے ساتھ مباحثہ و مدارسہ اسی وقت سے شروع ہو گیا تھا جب غفران مآب طاب ثراہ بقید حیات تھے ۔غفران مآب کی رحلت کا المیہ  ۱۲۳۵ھ میں پیش آیا جناب سید العلماء ۲۴ سا ل کے تھے ہم یہ بتا چکے ہیں کہ سلسلہ تصنیف و تالیف سترہ سال کی عمر سے شروع ہو چکا تھا اس لئےیہ قیاس کرنا درست ہوگا کہ سلسلئہ درس کی ابتدا اس کے آس پاس رہی ہوگی کیوں کہ ہمارے دیسی نظام تعلیم میں یہ عام بات تھی کہ مافوق طلاب سے ماتحت طلاب کودرس دلایا جاتا تھا اس سے بھی بڑھ کر مذاکرہ تھا جس میں سر بر آوردہ و ممتاز ہم سبق اپنے رفقا ء وہم درس کی مدد کیا کرتا تھا ۔ اس طریقہ تعلیم کو بعد میں انگریزوں نے مانپٹیو ریل سسٹم یا مدراس سسٹم کے نام سے موسوم کیا ۔
جناب نےمدرسہ سلطانیہ کی شکل میں اپنی اورباد شاہ کی ایسی یاد گار چھوڑی جو نشر معارف اہلبیت علیہم السلام کی خدمت کی ایک صدی پوری کر چکی ہے غصبِ اودھ کا واقعہ ہائلہ نہ پیش آیا ہوتا تو اس کا عرصہ افاضہ ۱۳۵ سال کی طویل مدت پر محیط ہوتا ۔ فرماں روایانِ اودھ نے اپنی تاریخ لکھنے یا لکھو انے کی طرف توجہ مبذول نہیں کی ۔ انگریزوں کے دور میں جو کچھ لکھا گیا وہ بیشتر انکے اشارے سے تھا اور ان میں تما م تر انہی کی ترجمانی ہے اس لئے تاریخ کا دامن اس تصریح سے معراہے کہ مدرسہ سلطانیہ کی بِنا کے اسباب کیا ہوئے ۔
ایک مدرسہ سلطان المدارس ہی شاہان اودھ کا وہ زریں عمل ہے جس نے علم کے دریا تمام ہندوستان کے ہر گوشے میں بہا دئیے تمام آثار اس خاندان اجتہاد کے علما ء کی زبردست روحانیت کا نتیجہ ہیں۔
جناب کے زہدو تقویٰ اور حسنِ اخلاق کی ثنا و صفت میں سیرت نگاروں نے بہت خامہ فرسائی کی ہے نہ ان واقعات کی صحت و صداقت میں کوئی شک ہو سکتا ہے اورنہ ان کی عظمت و و اہمیت میں لیکن  ان سطور کے لکھنے والے کو تو مرحوم کے زہد وا استغنا کی یہ حد حیرت میں ڈالنے والی ہےکہ حکو مت میں اتنے اثرو    ر سوخ اور مد خلیت و نفوذ کے باوجود اپنے یا اپنے خاندان کے لئے کوئی معافی ، جاگیر ، علاقہ مستاجری کچھ بھی تو حاصل نہیں کیا! ۔ دنیا کے بد دیا نتوں نے طرح طرح کی چہ میگوئیا ں کی ہیں لیکن کسی میں یہ کہنے کا دم نہیں کہ انہوں نےحکومت میں اپنے اثر کا استعمال ذاتی مفاد کے لئے کیا ہو ۔
مفتی علامہ نے اپنے استاد علیہ الرحمہ کے حالات میں ایک نہیں بلکہ کئی کتابیں تحریر فرمائی ہیں ۔ جن میں’’ اوراق الذہب ‘‘ کو ایک خاص مرتبہ حاصل ہے اوروہ جناب کے فضائل و مناقب سے مملو ہے ۔ اگراس کی پھر سے اشاعت ہو جائے یا اس کا ترجمہ شائع ہوجائے تو ایک بڑی کمی پوری ہو سکتی ہے اورجناب کی نسبت مفتی علامہ کے تمام معتقد ات منظر عام پر آسکتے ہیں ۔
اسی طرح جناب علامہ سید اعجاز حسین صاحب کنتوری طاب ثراہ’’  شذور العقیان‘‘  میں فرماتے ہیں: جناب اپنے عصر میں فرد فرید اپنے عہد میں خلاصۂ روز گار تھے، چشم دوراں کو ان کی مانند کوئی سرمہ نہیں ملا اور نہ کوئی صاحب تحقیقات و تدقیقات ان کا ہم رتبہ تھا،  وہ فنون عقلیہ و نقلیہ میں نہایت بلند پایہ تھے، اصول اور فقہ وکلام سے پوری طرح باخبر تھے، وہ صاحب قوت قدسیہ اور ملکی ملکات کے مالک تھے ۔
حجۃ الا سلام آقامرزا علی نقی طبا طبائی کر بلائی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے :آپ خاتمہ ہیں رقیمہ فقہ و اجتہاد کا اور احکام شریعت کے نظام ہیں اسلام کا بازوہیں اورحجتِ مردماں ہیں۔
بحر العلو م ملا حسین طبا طبائی نجفی کی رائے کا خلاصہ: اسلام و مسلمان کے شیخ و استاد ہیں اور نشانی خدا کی ہیں عالموں کے لئے آپ کا نہ کوئی کفو علمائےسابقین میں تھا نہ آئندہ ہوگا ۔ آپ معین دین اسلام اور حافظ شرع خیر الا نام ہیں ۔
حجۃ الاسلام آقا شیخ محمد حسن نجفی مصنف جو اہر الکلام کی رائے کا خلاصہ : ’’آپ جملہ علوم عقلی و نقلی میں علامہ ہیں شیعوں کے مددگار اور شرع کے حامی ہیں‘‘۔(حیات فردوس مکاں، ص ۹)
ایک محل اور ملا حظہ فرمائیں جو ادب و انشا پر سید علامہ کی قدرت کی دلیل بیّن ہے ۔ مفتی صاحب فرماتے  ہیں :نماز جمعہ کے سلسلہ میں یہ اتفاق پیش آیا کہ جناب نماز کے لئے تشریف لے گئے اورجب خطبہ پڑھنے کا قصد فرمایا تو کتاب مو جود نہیں ۔ خطبہ کی ضرورت پڑگئی حالت یہ تھی کہ جناب منبر پر بلند ہو کے اپنی جگہ لے سکے تھے مؤذن اذان دےچکا تھا، وقت بہت تنگ تھا،جناب نے بر جستہ طور پردو نہایت بلیغ خطبے بول کے لکھو ادئے جنکا اسلوب چاندی کے ڈھلے سکے کی مانند تھا‘‘ ۔
صاحب ورثۃ الانبیا ءنے جناب کی تفسیری تصنیفات کا ذکر بھی فرمایا ہے جن میں تفسیر سورہ حمد، سورہ بقر کی کچھ آیتوں کی تفسیر سورہ توحید کی تفسیر، سورہ د ہر کی تفسیر اورآیت کریمہ :خیر ام اخرجت للناس کی تفسیر؛   مئوخرالذ کرکی تفسیر میں امام فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کا تعقب ہے۔
اصلی منبع: "تاریخ مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ لکھنؤ، ج1،تالیف: مولانا شیخ ابن حسن املوی کربلائی؛ ناشر: انٹرنیشنل نورمائکرو فلم سینٹر ، ایران کلچر ہاؤس،دہلی( ہند)"۔
    جاری ہے۔۔۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • سید ذکی حیدر رضوی IN 08:21 - 2021/06/21
    0 0
    ماشاء اللہ بہت عمدہ کاوش ہے خداوند عالم جزائے خیر عطا فرمائے، توفیقات نیک میں اضافہ فرمائے اور احیائے مدارس میں اس کی مدد شامل حال رہے، حوزہ نیوز ایجنسی نے ایسے موقع پر مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ پیش کرکے بہت اچھا کام کیا ہے تاکہ دنیا مدرسہ سلطان المدارس کی تاریخ سے واقف ہوجائے۔