جمعہ 10 اکتوبر 2025 - 14:53
برصغیر کا علمی وقار اور مدارس کی زوال پذیر روایت، احیائے نظامِ تعلیمِ دینی کی فوری ضرورت

حوزہ/ برصغیر کی سرزمین کبھی علومِ اہل بیتؑ کا درخشاں مرکز تھی جہاں سے اجتہاد، تفسیر اور فقہ کے بےمثال علما نے جنم لیا، مگر افسوس کہ وہ تابناک روایت وقت کے ساتھ ماند پڑتی گئی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے قدیم مدارس کو جدید فکری و تعلیمی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے دوبارہ علم و اجتہاد کی روشنی کو زندہ کریں۔

تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | برصغیر کی سرزمین صدیوں تک علومِ اہل بیتؑ کے فروغ کا ایک روشن اور تابناک مرکز رہی ہے۔ اس خطے میں ایسے جلیل القدر علما پیدا ہوئے جنہوں نے فقہ، اصول، تفسیر، حدیث، منطق، فلسفہ اور دیگر اسلامی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ان علما کی علمی عظمت کا ایک نمایاں ثبوت وہ تاریخی واقعہ ہے جب آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفیؒ کو ہندوستان کے اکابر علما نے اجازۂ اجتہاد اور نقلِ روایت سے سرفراز فرمایا۔ ان بزرگانِ دین میں علامہ راحت حسین گوپالپوریؒ، نجم الملّتؒ علامہ نجم الحسن لکھنویؒ اور علامہ علی نقی نقوی جیسے ممتاز علما شامل تھے۔ یہ حقیقت اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ اُس زمانے میں حوزۂ ہند علمی حیثیت سے نجف جیسے عالمی مرکز کے ہم پلہ تھا۔

یہ علمی عظمت کسی ایک فرد یا دور کی کوشش کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے ایک مربوط، منظم اور فعال تعلیمی نظام کارفرما تھا۔ ہندوستان کے مختلف خطوں میں قائم شیعہ دینی مدارس نے نسل در نسل علما کی تربیت کی اور انہیں علومِ اسلامی کے زیور سے آراستہ کیا۔ لکھنؤ، فیض آباد، بنارس، جونپور، امروہہ، پٹنہ، میرٹھ، رامپور، نوگاواں، مبارکپور، حیدر آباد، کرگل اور کشمیر کے علمی مراکز اس نظام کی بنیادیں سمجھے جاتے تھے۔ ان مقامات پر موجود مدارس، مثلاً مدرسۃ الواعظین، مدرسہ سلطان المدارس اور مدرسہ ناظمیہ (لکھنؤ)، وثیقہ عربی کالج (فیض آباد)، جامع العلوم جوادیہ اور مدرسہ ایمانیہ (بنارس)، باب العلم (مبارکپور، نوگاواں اور بڈگام کشمیر)، مدرسہ سلیمانیہ (پٹنہ)، مدرسہ ناصریہ (جونپور)، منصبیہ عربی کالج (میرٹھ)، مدرسہ عالیہ جعفریہ (نوگاواں)، سید المدارس، نورالمدارس (امروہہ)، مدرسہ عالیہ (رامپور) اور حوزہ علمیہ اثنا عشریہ (کرگل) نے علمی زندگی کو استحکام عطا کیا۔ یہی ادارے تھے جنہوں نے ہندوستان کو صاحبِ اجتہاد فقہا، بصیرت مند مفسرین، اور روایت شناس محدثین دیے۔

ان مدارس کے فیض یافتہ علما نے فقہ و اصول، تفسیر و حدیث، کلام و عقائد، اور منطق و فلسفہ جیسے دقیق علمی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے نہ صرف بلند پایہ کتب، رسائل اور تفاسیر تحریر کیں بلکہ امت کو فکری و دینی رہنمائی بھی فراہم کی۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر کے علما کی آواز نجف، قم، تہران اور قاہرہ جیسے علمی مراکز میں سنی جاتی تھی اور ان کی علمی آرا کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

حوزۂ علمیہ لکھنؤ، برصغیر کا ممتاز علمی مرکز

ان مدارس میں حوزہ علمیہ لکھنؤ کو شبہ قارۂ ہند میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ حوزہ لکھنؤ نہ صرف ملک بھر کے طلاب کے لیے مرکزِ علم تھا بلکہ بیرونِ ملک سے بھی تشنگانِ علم یہاں کھنچے چلے آتے تھے۔ خصوصاً مدرسۃ الواعظین ایک ایسا ادارہ تھا جہاں نہ صرف ہندوستان کے مختلف شہروں سے فاضل طلبہ نے داخلہ لیا بلکہ مصر، افریقہ، عراق (نجف اشرف) اور ایران (تہران) جیسے ممالک سے بھی تشنگانِ علم نے آکر اساتذۂ مدرسہ سے کسبِ فیض کیا۔ اس علمی مرکز سے وہ عظیم علما وابستہ رہے جنہوں نے اجتہاد کے اعلیٰ مقام پر پہنچ کر حوزۂ ہند کا نام روشن کیا۔ ان میں آیت اللہ جواد نجفی، آیت اللہ سید قمی اور آیت اللہ شیخ محمد عباس اسلامی تہرانی کے نام نمایاں ہیں۔ مدرسۃ الواعظین نے صرف مجتہدین ہی نہیں بلکہ درجنوں ایسے واعظین و مبلغین بھی تیار کیے جنہوں نے دنیا کے مختلف گوشوں میں جا کر دین کی تبلیغ کی اور اپنے ادارے کا نام سربلند کیا۔

مگر افسوس کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ درخشاں روایت زوال کا شکار ہوئی۔ سیاسی تبدیلیاں، سماجی تغیرات، تقسیمِ ہند کے بعد پیدا ہونے والا تعلیمی خلا، مالی وسائل کی قلت اور دینی علوم سے نئی نسل کی دوری جیسے اسباب نے اس علمی مرکز کو آہستہ آہستہ کمزور کر دیا۔ وہ مدارس جو کبھی علم و اجتہاد کے روشن چراغ تھے، وقت کی گرد میں مدھم ہوتے گئے۔

آج اس علمی میراث کی حفاظت اور احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ہم ان ہی قدیم مدارس کو جدید فکر، تحقیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ زندہ کریں، دینی تعلیم کو معاصر تقاضوں سے ہم آہنگ کریں اور نئی نسل کو اس عظیم روایت سے جوڑنے کی سنجیدہ کوشش کریں تو حوزۂ ہند ایک بار پھر علم و اجتہاد کی قیادت کا اہل بن سکتا ہے۔ یہی ہمارے ماضی کی شناخت ہے اور یہی ہمارے دینی و فکری مستقبل کی ضمانت بھی۔

اس سرزمیں میں کثیر تعداد میں علماء و فقہاء پیدا ہوئے اور مسند اجتہاد پر خدمت خلق انجام دی ہم ان میں سے چند صاحبان رسالہ کے نام ذیل میں ذکر کر رہے ہیں تاکہ اس سرزمین کی علمی عظمت کا اندازہ ہو سکے: علامہ سید دلدار علی نقوی "غفران مآب، علامہ سید محمد قلی موسویؒ، آیت اللہ سید محمد عباس لکھنویؒ، آیت اللہ سید علی نقی نقوی، علامہ نجم الحسن لکھنویؒ، علامہ سید راحت حسین گوپالپوریؒ، آیت اللہ سید محمد نقویؒ، ناصرالملت علامہ ناصر حسین موسوی، علامہ امجد علی الہ آبادی ، علامہ یوسف حسین امروہوی وغیرہ

مدارس اور بدلتے اقدار

ایک زمانہ تھا جب مدارس، طلبہ سے آباد تھے۔ اساتذہ بھی دلجمعی اور اخلاص کے ساتھ اپنے شاگردوں کی علمی و اخلاقی تربیت میں مصروف عمل تھے۔ ہندوستان کی سرزمین علمی لحاظ سے زرخیز تھی اور نظامِ تعلیم میں بھی قابلِ ذکر تبدیلی تھی۔ اُس دور میں اردو اور فارسی کی تعلیم، شرافت اور ذوقِ سلیم کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے ہی اکثر حکیم اور طبیب کہلاتے تھے کیونکہ نصاب میں طب (علمِ دوا و درماں) کا ایک مستقل حصہ شامل ہوتا تھاجسے سیکھ کر طلبہ روزگار حاصل کرتے اور خدمتِ خلق انجام دیتے۔

اس وقت حکومت اور دیگر اداروں کی سرکاری زبان بھی فارسی اور عربی تھی جیسا کہ پرانے سرکاری کاغذات اور دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے۔ مدارس اگرچہ عظیم الشان عمارتوں پر مشتمل ہوتے لیکن مالی تنگی کی شکایت ان کا مستقل مسئلہ تھی۔ وقت کا پہیہ چلتا رہا زمانہ بدلتا گیا۔ دفاتر کی زبان رفتہ رفتہ انگریزی ہو گئی عربی اور فارسی کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی اور طبیہ کالجوں میں بھی انگریزی تعلیم غالب آ گئی۔ اردو ، فارسی زبانوں کے ماہرین بے روزگار ہونے لگے۔مگر افسوس، مدارس کے ذمہ داران اور منتظمین نے اس بدلتے منظرنامے کو نہ سمجھا، نہ اس پر توجہ دی۔ ان کی غفلت اور بے شعوری نے قوم کو علمی، فکری اور اقتصادی اعتبار سے شدید نقصان پہنچایا۔

مدارس کے فارغ التحصیل افراد نے معاشی مجبوری کے تحت تبلیغ کو ذریعہ معاش بنا لیا جس کا اثر یہ ہوا کہ نہ صرف قوم بلکہ دین و دینداری بھی زوال پذیر ہونے لگے اور دین سستا، دنیا مہنگی بکنے لگی۔ علماء نے اس صورتحال کا ادراک نہیں کیا اور بصیرت سے کام لینے کے بجائے خاموشی اختیار کیے رکھی۔

آج زندگی کے اقدار یکسر بدل چکے ہیں۔ صرف دین سے بےرغبتی ہی نہیں بلکہ اردو، فارسی اور عربی زبانوں کو بھی غیر ضروری اور "غیر مفید" سمجھا جانے لگا ہے۔ بیشتر ذہنوں میں دینی تعلیم کو فقر و تنگدستی کا باعث تصور کیا جا رہا ہے۔ مدارس کے نصاب میں ویرانی چھا چکی ہے اور جو کچھ باقی بھی تھا وہ بھی زمانے کی سازشوں کی نذر ہو چکا ہے۔ اب طلبہ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے۔

آخر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟

خود مدارس کے طلبہ نے حالات کو محسوس کیا اور عصری تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ لے کر جدید علوم حاصل کرنا چاہےلیکن یا تو اپنی زبان میں اپنی سوچ و فکر بیان نہ کر سکے یا مدارس کے ذمہ داران اس تبدیلی کو سمجھ نہ سکے۔ مسئلہ کو سمجھنے کے بجائے ان کی طرف سے سخت رویہ اختیار کیا گیا۔ اگر کسی طالب علم نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور یہ بات مدرسہ کے منتظمین کو معلوم ہو گئی تو اسے مدرسے سے خارج کر دیا جاتا یا ایسی سزا دی جاتی کہ باقی طلبہ اس راستے کی طرف سوچنے سے بھی ہچکچائیں۔مگر اس وقت مسئلہ بر عکس ہوچکا ہے مدارس میں طلاب نہیں ہیں اور اگر کوئی طالب ہے بھی تو مدیران مدارس کی نگاہ میں اس کا رہنا ہی ان کے لئے نعمت ہے باقی درس و تعلیم پر زور دینے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں چلا نہ جائے۔

چنانچہ مدرس میں طلاب کی موجودگی کا فقط ایک راستہ ہے اور وہ ہے تعلیمی نصاب اور نظام دونوں میں تبدیلی اور ان زبانوں پر کام جس زبان والے کو روزگار فراہم ہو رہا ہے نیز ساتھ میں ہائی اسکول، انٹر، اور بی ایے الی الخ جیسی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔

یہ باتیں ہمیں اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئیں گی جب تک ہم دوسری اقوام اور مذاہب جیسے سیکھ، جین اور مسلمان وغیرہ کو نہیں دیکھیں گے اہلسنت کے مدارس میں بہت تبدیلی آئی ہے سنی مدرسہ کا طالب علم روزگار اور عصری تعلیم سے دور نہیں ہے وہ طالب علم ہوئی جہاز بھی اڑا رہے ہیں دانشگاہوں میں پروفیسر بھی ہیں اور انجینئر و ڈاکٹر جیسے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اگر ہم ایک ایک کو یہاں بیان کریں تو مفصل کتاب کی شکل اختیار کر لے گی۔

اہلسنت کے مدارس کے ساتھ وہ خود بھی تعلیمی میدان میں بہت آگے ہیں انہوں نے ہر شہر میں ایک دانشگاہ ، کالج، اسکول اور مدرسہ بنایا ہے۔ وہ لوگ زندگی کے ہر شعبہ میں موجود ہیں اور ہم کہیں نہیں ہیں سوائے عزاداری اور آپسی اختلافات کے۔

امامبارگاہیں:

اگر ہم اپنی امامبارگاہوں کی بات کریں تو ہر شہر، ہر محلہ اور ہر دیہات میں موجود ہیں۔ ماضی میں بادشاہوں اور ثروتمندوں نے امامبارگائیں اور شبیہ کربلائیں پوری شان و شوکت سے بنوئیں جن میں آصفی امامبارگاہ لکھنؤ یا وہاں کے دیگر مقامات، یا بنگال کی سرحد پر مرشدآباد کا امامبارگاہ ہو یا حیدرآباد کے عاشور خانے یہ سب ایام عزا میں عزاداری کے لئے استعمال ہوتے ہیں باقی ان کا کوئی مصرف شیعہ قوم کے لئے نہیں ہے۔ امامبارگاہوں کا مصرف ہوسکتا ہے جیسا کہ سیکھ برادری گرودوارہ میں اسکول اور ایک ہاسپیٹل بناتے ہیں اور وہاں سے انسانیت کی خدمت کرتے ہیں مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے کیونکہ علمائے کرام نے تعلیم اور صحت کو دین کا حصہ نہیں بتایا جس کی وجہ سے قوم بھی متوجہ نہیں ہے۔

ہندوستانی شیعہ قوم کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں یہ خود اپنے آپ سے حل کر لیں گے جس طرح حضرت فاطمہ زہرا کی شہادت پر ایک دن عزاداری ہوتی تھی مگر آیات کرام نے ایام فاطمی فرہنگ پر کام کیا تو ایک ماہ سے زیادہ کڑوڑوں روپیہ خرچ کرہونے لگایہ سب پیسہ مؤمنین اپنے پاس سے خرچ کرتے ہیں۔ چنانچہ ایام فاطمی فرہنگ کی گسترش سے سمجھ میں آتا ہے کہ علماء و آیات کرام بھی تعلیمی اور اقتصادی جیسے عظیم کارنامے کو بغیر کسی پیسے کے ان ہی امامبارگاہوں اور مدارس سے گسترش دے سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے پالنے والے ہم سب کو علم جیسی دولت عطاءفرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔

برصغیر کا علمی وقار اور مدارس کی زوال پذیر روایت، احیائے نظامِ تعلیمِ دینی کی فوری ضرورت
تحریر: مولانا سید رضی حیدر پھندیڑوی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha

تبصرے

  • تسلیم حسن IN 16:20 - 2025/10/10
    واہ ماضی حال اور مستقبل کو دکھا دیا اللہ سلامت رکھے ابھرتے ہوے عظیم محقق و مفکر مولانا رضی صاحب ہیں۔ مضمون پڑھ کے رہا نہ گیا یہ تحریر لکھنے پر مجبور ہوا
  • ظہیر عباس لکھنوی IN 16:25 - 2025/10/10
    قبلہ نے مختصر تحریر میں تاریخ اور حقیقت کے سمندر کو بیان کردیا ہے
  • Qamar sultan naqvi amroha IN 17:57 - 2025/10/10
    Mashallah molana buhat acha
  • دلبر علی ممبی IN 21:13 - 2025/10/10
    یہ مضمون پڑھ کے لگتا ہے دور اندیشی ضروری ہے وہ ہی کسی قوم اور ملت کو محفوظ رکھ سکتی ہے
  • مسرت حسین رضوی IN 14:22 - 2025/10/11
    اللہ اس عظیم مفکر کو نظر بد سے محفوظ رکھے آمین
  • تبحر حسن IN 22:51 - 2025/10/12
    زندہ باد قبلہ آپ ابھرتے ہوے مفکر ہیں زمانہ آپ کو دیر سے سمجھے گا
  • امیر رضا IN 13:49 - 2025/10/13
    آپ نے تلخ حقیقت بیان کر دی اللہ آپ جیسے مفکر اور جری کو سلامت رکھے
  • امیر رضا IN 13:49 - 2025/10/13
    آپ نے تلخ حقیقت بیان کر دی اللہ آپ جیسے مفکر اور جری کو سلامت رکھے
  • مظفر حسین IN 17:01 - 2025/10/13
    لا جواب حقیقت مگر کڑوی
  • فیصل عباس IN 17:07 - 2025/10/13
    قبلہ بہت اچھا آپ کتابیں اور مقالات لکھتے رہیں ۔ قوم کے ذمہ دار نہیں سمجھیں گے ۔ آپ کی رحلت کے بعد آپ پر پی ایچ ڈی ضرور ہوجائے گی اور سند اجتہاد سب کچھ مل جاۓ گا
  • ضرغام عباس IN 08:40 - 2025/10/14
    یہ جوان مولانا رضی صاحب مفکر ہونے کے ساتھ ہمدرد قوم بھی ہیں انہوں نے میڈیکل ٹرسٹ سے پبلک کو صحت یاب بنا رہے ہیں ۔ اللہ انہیں سلامت رکھے
  • ضرغام عباس IN 08:40 - 2025/10/14
    یہ جوان مولانا رضی صاحب مفکر ہونے کے ساتھ ہمدرد قوم بھی ہیں انہوں نے میڈیکل ٹرسٹ سے پبلک کو صحت یاب بنا رہے ہیں ۔ اللہ انہیں سلامت رکھے
  • خلعت زہرا IN 10:01 - 2025/10/14
    قبلہ حق کڑوا ہوتا ہے اتنا جرئت اور حق بیانی سے کام نہ کیا کیجیے ورنہ بے دینوں سے کم دینداروں سے خطرہ زیادہ ہے آپ کو
  • ترنم زہرا IN 13:36 - 2025/10/14
    حق کی بات کی ہے آپ نے اپنی فکر ظاہر کی اللہ سلامت رکھے مولانا صاحب