۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تصاویر/ بازدید رییس شیعیان پاکستان از خبرگزاری حوزه

حوزہ / وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری صاحب نے "پاکستان میں دینی مدارس کو درپیش مسائل اور ان کا راہِ حل" کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کے ساتھ خصوصی گفتگو کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری صاحب نے "پاکستان میں دینی مدارس کو درپیش مسائل اور ان کا راہِ حل" کے حوالے سے حوزہ نیوز ایجنسی کو خصوصی انٹرویو دیا ہے۔ جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:

تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے

حوزہ نیوز: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے تشکیلی ڈھانچے کو بیان کرتے ہوئے اس ادارہ کی خدمات پر مختصر روشنی ڈالیں؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری: وفاق المدارس الشیعہ علماء پاکستان کے موجودہ سربراہ کراچی کے سید رضی جعفر نقوی صاحب ہیں۔

وفاق علماء شیعہ میں علماء مدارس اور ائمہ جمعہ والجماعت سب اس کے عضو تھے۔ میں تقریباً دس سال وفاق علماء شیعہ کا سیکرٹری رہا ہوں۔ اس کے بعد وفاق المدارس کا سیکرٹری بنا۔ وفاق المدارس کا ایک مہم کام سازمان کا قیام تھا جس کا نام "سازمان اتحاد تنظیمات مدارس" ہے۔ اس میں شیعہ و سنی تمام مدارس شامل ہیں۔

قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں کل پانچ وفاق موجود ہیں:

1۔ وفاق العربیہ کہ جو دیوبندی مدارس سے مربوط ہے ۔

2۔ وفاق المدارس سلفیہ کہ جو اہلحدیث کے مدارس کے ساتھ مربوط ہے ۔

3۔ وفاق المدارس الشیعہ جو کہ ہمارے شیعہ مدارس سے مربوط ہے ۔

4۔ تنظیم المدارس ہے کہ جو اہلسنت حنفی و بریلوی مدارس سے مربوط ہے ۔

5۔ سازمان رابطۃ المدارس جو کہ جو دیوبندی ہیں اور جماعت اسلامی کہ جو سیاسی، مذہبی گروہ ہیں۔

پھر ان تمام پانچ وفاق کا مجموعہ ہے۔ میں اس وقت اس سازمان کا نائب سرپرست ہوں۔

یہ سازمان جب بھی کوئی مشکل پیش آتی ہے تو سب جمع ہو کر ایک فیصلہ کرتے ہیں۔ اور آج تک حکومت بھی جو مدارس کو اپنے کنٹرول میں لینے میں کامیاب نہیں ہوئی یہ اسی سازمان اتحاد تنظیم المدارس کے طفیل ہے۔

تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے

وہاں حکومت مدارس کے بجٹ کے بہانے کافی عرصہ سے اس تلاش میں ہے کہ مدارس حکومت کے کنٹرول میں چلے جائیں وغیرہ لیکن علماء کرام اور یہ سازمان مانع ہیں تاکہ مدارس کے استقلال اور حریت میں کوئی حرف نہ آئے۔

حوزہ نیوز: اتحاد و وحدت المسلمین میں سازمان اتحاد تنظیم المدارس کا کیا کردار رہا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:سازمان اتحاد تنظیم المدارس کی ہی برکت سے آج علماء و مدارس کے درمیان اتحاد و وحدت کی فضا قائم ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب میں لاہور میں موجود مدرسہ اشرافیہ میں ایک پروگرام میں گیا تو واپسی پر ایک طالبعلم نے مجھے دیکھ کر "کافر کافر شیعہ کافر" کا نعرہ لگایا اور بھاگ گیا تھا یعنی مذاہب کے درمیان نفرت و کدورت پائی جاتی تھی لیکن اب الحمد للہ تمام مدارس میں آتے جاتے ہیں اور کبھی ایسی کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔

آیت اللہ اعرافی جب پاکستان کے دورہ پر گئے تھے تو جامعۃ المنتظر میں تمام مدارس کے سرپرست حضرات کو جمع کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ نشست رکھی گئی تھی۔ اب انہوں نے کہیں دوسرے پروگرام میں شرکت کرنا تھی تو ان کے ساتھ موجود افراد انہیں بار بار یادآوری کرا رہے تھے کہ اگلے پروگرام میں پہنچنا ہے۔ بالآخرہ آیت اللہ اعرافی نے انہیں کہا کہ "اگلے پروگرام کو کینسل کر دیں چونکہ مدارس کے سربراہان کے ساتھ یہ نشست بہت مہم ہے"۔

سازمان اتحاد تنظیم المدارس اس سے پہلے صرف مرکز میں کام انجام دیا کرتا لیکن اب تمام شہروں میں اس کی برانچز بنا دی گئی ہیں۔

تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے

سازمان اتحاد تنظیم المدارس میں کثرتِ رائے کی اہمیت نہیں "اتفاقِ رائے" مہم ہے

سازمان اتحاد تنظیم المدارس میں سب سے مہم بات کسی بھی قسم کا فیصلہ کثرت آراء سے نہیں کیا جاتا بلکہ سب کے اتفاقِ نظر سے کیا جاتا ہے یعنی اگر ایک ممبر بھی کسی مسئلہ میں مخالف ہوا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا۔ چونکہ اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ان پانچ وفاقوں میں برادران اہلسنت چار ممبرز ہیں اور شیعہ کا ایک رکن میں ہوں تو اب اس میں کثرتِ رائے کی اہمیت نہیں "اتفاقِ رائے" مہم ہے جو کہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

ایک دفعہ مفتی منیب الرحمن مدرسہ المنتظر میں آئے تو نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔ ہم انہیں نماز کے لئے مسجد لے کر گئے تو نماز ظہر ختم ہو چکی تھی۔ میں نے انہیں کہا بسم اللہ نماز کی امامت کرائیں، آپ اپنی نماز ظہر پڑھیں باقی افراد آپ کے پیچھے نماز عصر پڑھ لیں گے۔ بہت حیران ہوئے اور وہاں نمازِ جماعت ان کی اقتداء میں منعقد ہوئی۔ نماز کے بعد جب فارغ ہوئے تو مجھ سے کہتے ہیں کہ کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ سب نے میرے پیچھے نماز پڑھی اور کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا حالانکہ اگر آپ ہمارے ہاں آئیں تو شاید میں آپ کو اس طرھ نماز جماعت کی امامت کا نہ کہہ سکوں۔ تو میں نے وہاں ان سے کہا کہ "کہ ہاں؛ چونکہ ہم اپنی نماز جمعہ کے خطبوں میں مومنین کو بتاتے ہیں کہ آپ لوگ بھی مسلمان ہیں حالانکہ یہی چیز آپ کے ہاں سے منتقل نہیں ہوتی لہذا وہ لوگ کیسے ہمیں قبول کریں گے"۔

تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی سروس کے ڈائریکٹر جناب آقای سعیدی نے گفتگو میں شرکت کرتے ہوئے کہا: ملک پاکستان کے شیعہ علماء کرام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ علمی طور پر بہت مستحکم ہیں اور حتی کئی ایک درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہیں۔ اور یہ بہت ہی خوش آئند ہے کہ ایک طرف تو پاکستانی علماء کرام معاشرہ کی ضروریات کو پورا کریں اور دوسری طرف علمی لحاظ سے بھی قابلِ قدر پیشرفت کریں۔

اسی ضمن میں پاکستانی علماء کی تاریخ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری نے کہا:

ہماری علمی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو وہ کوئی اتنی طولانی نہیں ہے۔ جب تک ہند و پاکستان نے استقلال حاصل نہیں کیا تھا تو اس وقت تک ہمارا تعلیمی مرکز لکھنؤ تھا،اس وقت سب مسلمان لکھنؤ مراجعہ کیا کرتے۔ اس وقت ایک مسلم آیت اللہ تھے بنام "آیت اللہ دلدار حسین"۔ پھر ان کے بعد بہت سارے شیعہ علماء سامنے آئے۔منجملہ آقای سید ناصر، مفتی احمد علی اور اسی طرح علامہ سید علی نقی نقن صاحب قبلہ جو انتہائی برجستہ عالم دین تھے، پھر 1947ء میں ہند و پاکستان کی آزادی کے بعد پاکستان میں صرف ایک مدرسہ ہوا کرتا تھا حالانکہ اس وقت بنگلہ دیش بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ اب تقریباً 74 سال کے بعد پاکستان نے دینی مدارس اور علمی شخصیات میں بہت زیادہ پیشرفت کی ہے۔

انہوں نے پاکستان میں دینی مدارس کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا:

اس وقت الحمد للہ پاکستان میں 500 سے زیادہ دینی مدارس موجود ہیں۔ جن میں سے کوئی بھی مدرسہ ایسا نہیں ہے جو تحت اشراف وفاق المدارس نہ ہو یعنی سبھی وفاق المدارس کا رکن ہیں۔ البتہ ابھی تازہ حکومت کی طرف سے ایک نیا وفاق تشکیل دیا گیا ہے جس میں 5 سے 6 مدارس شامل ہیں۔

حوزہ نیوز: پاکستان کے شیعہ مدارس کا کوئی علمی مجلہ یا ماہنامہ بھی نشر ہوتا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:جی بالکل؛ مختلف مدارس کے کئی ایک ماہنامہ نشر ہوتے ہیں۔ جیسے لاہور سے ماہنامۂ المنتظر شائع ہوتا ہے، جامعہ مخزن العلوم ملتان سے "المخزن" نشر ہوتا ہے، اسلام آباد میں علامہ سید حسنین گردیزی صاحب کی طرف سے اور اسی طرح جامعۃ الکوثر کی طرف سے بھی مجلہ منتشر ہوتا ہے اورمیانوالی سے علامہ سید افتخار حسین نقوی صاحب کی طرف سے "پیامِ زینب" وغیرہ منتشر ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا: ہندوستان کی سرزمین علماء کی رفت و آمد اور حصولِ علم کا مرکز ہوا کرتی تھی، صاحبِ الغدیر علامہ امینی، آیت اللہ سید مرعشی نجفی اور کئی دیگر بزرگ علماء حصولِ علمِ دین کے لئے ہندوستان کا رخ کیا کرتے تھے۔

پاکستان میں علامہ شیخ اختر عباس نجفی جو کہ جامعۃ المنتظر لاہور کے موسس ہیں، وہ آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ منتظری کے ہم مباحث تھے۔ اسی طرح میں کچھ عرصہ پہلے عراق زیاراتِ عتبات کے لئے مشرف ہوا تو وہاں آیت اللہ اسحٰق فیاض سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ "آقای شیخ اختر عباس نجفی کا سنائیں؟" تو میں نے عرض کیا کہ وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تو ان کا افسوس سے کہنا تھا کہ انہوں نے یہاں نجف اشرف سے جا کر گویا اپنے آپ پر ظلم کیا چونکہ اگر وہ یہاں رہتے تو مرجع اور بزرگ ملا بن کر سامنے آتے، بہت فاضل شخصیت کے مالک تھے"۔

حوزہ نیوز: آپ کی نظر میں اس وقت پاکستان میں تشیع کو کن چیلنجز کا سامنا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:میری نظر میں بحیثیتِ تشیع ہمیں پاکستان میں اس وقت کسی خاص چیلنج کا سامنا نہیں ہے۔ پاکستان میں تشیع کی خدمت کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے۔ ہاں کچھ ذیلی مسائل ہیں لیکن جو قابلِ حل ہیں البتہ ہمیں مزید اتفاق و اتحاد کی ضرورت ہے، منبر کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، حالانکہ حالیہ عرصہ میں منبر و مجالس کے حوالے سے کافی مثبت بہتری دیکھنے کوملی ہے بہرحال علماء کرام کو منبر کے لحاظ سے مزید مضبوط ہونے کی بھی ضرورت ہے۔

حوزہ نیوز:پاکستان میں تعلیمی نصاب کے حوالے سے مذہبِ تشیع کے خدشات کو دور کرنے میں وفاق المدارس کیا کردار رہا ہے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:تعلیمی نصاب سے آپ کی مراد یکساں قومی نصاب ہے تو اس میں سب سے پہلے گورنمنٹ کی طرف سے جب اعلان ہوا تو کمیٹی میں تمام وفاقوں کا ایک ایک نمائندہ لیا گیا۔ ہماری طرف سے علامہ قاضی نیاز نقوی صاحب ممبر تھے۔ پھر ان کی وفات کے بعد کوئی دوسرا بندہ منتخب نہیں ہوا چونکہ نصاب تشکیل پا چکا تھا۔ اب اگر دیکھا جائے تو اس یکساں قومی نصاب کی تشکیل کے وقت مختلف اداروں کے وائس چانسلرز سمیت تقریبا 50 ممبرز تھے جن میں یہ ایک شیعہ تھے۔ لہذا اس میں ظاہر ہے صرف ایک نمائندہ کی حد تک ہی بات منوائی جا سکتی تھی۔

تشیعِ پاکستان کے لئے علماء کرام کا بڑا عظیم کردار رہا ہے

اس کے بعد جب نظرثانی کا مرحلہ آیا تو اس میں ہمارے دو ممبرز موجود تھے۔ ایک کلاس اول سے کلاس پنجم تک کے نصاب میں ڈاکٹر علامہ سید محمد نجفی صاحب تھے اور دوسرا کلاس ششم سے کلاس ہشتم تک کے ممبر علامہ شیخ محمد شفا نجفی صاحب تھے۔ اب ایک دو میٹنگ میں ڈاکٹر علامہ سید محمد نجفی صاحب نہیں جا سکے تو جب نصاب سامنے آیا تو اس میں کئی پرابلمز تھیں جس پر ہم نے احتجاج کیا جس کے کافی اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بہت ساری چیزیں میں اصلاح کو انہوں نے قبول کیا ہے اور کچھ ایک پر ابھی بحث ہو رہی ہے۔

تصویری جھلکیاں: وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل علامہ محمد افضل حیدری کا اپنے وفد کے ہمراہ حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ

البتہ ذہن میں رہے کہ یہ نصاب 2023ء تک کا ہے۔ پھر اس نصاب پر نظرِ ثانی ہو سکتی ہے اور ممکنہ تبدیلیاں انجام دی جا سکتی ہیں۔

حوزہ نیوز:پاکستان میں دینی مدارس کی بہتری کے لئے وفاق المدارس کی فعالیت کو بیان کریں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:پاکستان کے شیعہ دینی مدارس کا حکومت سے رابطہ یا کسی بھی قسم کے معاملات کو وفاق المدارس ہی دیکھتا ہے۔ اسی طرح حکومت سے منظور شدہ اسناد کی فراہمی بھی وفاق المدارس کے ہی توسط سے انجام پاتی ہے۔

مدارس کی بہتری کے لئے ہر 5 سال میں ایک دفعہ پورے ملک میں مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے

مدارس کی بہتری کو اگر دیکھا جائے تو ہر 5 سال میں ایک دفعہ پورے ملک میں مدارس کا دورہ کیا جاتا ہے، انہیں قریب سے دیکھا جاتا ہے، ان کی مشکلات سنی جاتی ہیں اور حتی الامکان ان کے مسائل کو حل کیا جاتا ہے۔ مثلا کسی مدرسہ کو مدرس کی ضرورت ہے انہیں مدرس فراہم کیا جاتا ہے وغیرہ۔

حوزہ نیوز: حوزہ نیوز مدارس اور علماء کرام کا پلیٹ فارم ہے، اس میں مزید بہتری کے لئے آپ کیا مشورہ دیں گے؟

حجۃ الاسلام والمسلمین افضل حیدری:میرے خیال میں سب سے پہلے حوزہ نیوز کا پاکستانی مدارس میں تعارف کرایا جائے اور اس توسط سے جو آپ خدمات انجام دے رہے ہیں یا جو مدارس خدمت کر رہے ہیں وہ ایک دوسرے تک پہنچائی جائیں۔ آج کی دنیا میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں ہے اور حوزہ نیوز جیسے پلیٹ فارمز سے مدارس اور علماء کو اپنی فعالیت اور علمی سرگرمیوں کو دوسروں تک پہنچانے کا موقع مل سکتا ہے۔بہرحال اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی خدمت ہو تو ہم حاضر ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .