حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نقوی نے علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اللہ کی لازوال نعمت، عطیہ اور بہت بڑا ہدیہ ہے۔وطن عزیز کی وجہ سے ہمیں آزادی اور ترقی ملی۔ آزادی کی نعمت نہ ہوتی تو ہم انگریزوں کے غلام ہوتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 1947ء میں آزادی سے پہلے مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا۔ کچھ مسلمان غیروں کا سود چکاتے چکاتے ان کے غلام بن جاتے تھے اور بعض اوقات تو ساری کی ساری بستی اسی سود کی وجہ سے ان کی غلام بن جاتی تھی۔
آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے آزادی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی بدولت ہمارے پاس سب کچھ موجود ہے۔ لاہور کے انار کلی بازار میں صرف چار پانچ دکانیں مسلمانوں کی اور باقی سب غیروں کی تھیں۔ 27 رمضان کو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کی حفاظت ہم سب پر واجب ہے۔
انہوں نے علی مسجد جامعتہ المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے کہا: جہاں اسلام کے پیروکار باقی مکاتب فکر کا حال تھا اسی طرح مکتب اہل بیت اہل تشیع کی علمی اور عملی حالت کوئی اچھی نہ تھی۔ شیعہ قوم کے پاس1960ءکی دہائی میں صرف چند مسجدیں تھیں کہ جن میں نماز با جماعت تقریباً ًنہیں ہوتی تھی۔لوگوں کو اپنی میتیں صحیح طور پر دفن کرنے کی رہنمائی بھی نہیں تھی۔ جب ان کو علماء شرعی مسئلہ بتاتے تو کہتے تھے ہم نے تو اس سے پہلے ایسا نہیں سنا، لیکن آج پاکستان میں علماء کرام کے محنتوں کی بدولت شیعہ مدارس کافی حد تک لوگوں کے درمیان پہونچ چکاہے، یہ ہماری ملی قوت اور عظمت ہے،ہر طرف علماء اور طلباء نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے وجود سے ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت اور آباد رکھے۔
ان کا کہنا تھا کہ خالق حقیقی ہی وہ ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ اس نے حضرت انسان کی تربیت کیلئے انبیاءکرام علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر کتب اور صحیفے نازل کیے۔ لیکن آخری کتاب قرآن مجید کی حفاظت کے لئے فرمایا: "و انا لہ لحافظون" ہم ہی نے اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔یہاں پر لفظ "حافظون"ذکر ہوا ہے جس سے مراد ہے ہم ہی ہر زمانے میں اس کی حفاظت کرنے والے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر 9قسم کے عذاب نازل ہوئے کہ جن میں سب سے پہلی سزا" سنین" یعنی چند سال کیلئے قحط سالی، طوفان یعنی آندھی، جھکڑ اور سیلاب، ہر چیز کو کھانے والے حشرات، مکڑی کا عذاب، مینڈک کا عذاب، خون کہ جو چیز کھاتے یا پیتے تھے تو ان کو خون نظر آتا تھا۔ ساری بیماریاں اور عذاب فاصلے فاصلے سے آتے تھے یعنی ایک ماہ بعد یا ایک سال بعد۔لیکن حضرت موسیٰ کی قوم کی عادت تھی کہ جب ان کے سر سے عذاب ٹل جاتا تو خدا کو بھول جاتی تھی۔جب کوئی اچھی چیز مل جاتی تو کہتے: " ہم نے بہت محنت کی تھی اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بجائے اپنے آپ کو کریڈٹ دیتے تھے لیکن جب کوئی خرابی ہو جاتی تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کو مجرم ٹھہرایا جاتا تھا۔کیا آج کل ہمارے ملک میں وہی صفات جو بنی اسرائیل میں تھیں نہیں پائی جاتی۔