حوزہ نیوز ایجنسی | صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر عابدی 26/ جمادی الاولیٰ سنہ 1357 ہجری سرزمین نوگانواں سادات ضلع مرادآباد صوبہ یوپی کے ایک علمی گھرانہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد صدرالملت مولانا سید محمد مجتبیٰ ایک جید عالم دین تھے۔
آپ اس علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھےجس کا فیضان صدیوں سے جاری ہے آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن میں حاصل کی اور اس کے بعداپنے والد کے تاسیس کردہ مدرسہ " جامعہ عالیہ جعفریہ " نوگاواں سادات میں جید اساتذہ کی خدمت میں رہ کرعلم نحو ، صرف، منطق، فلسفہ، اصول اور فقہ کی کتابیں پڑھیں۔
صدر العلماء نے سنہ 1959عیسوی میں نجف اشرف کا رخ کیا، وہاں رہ کر بزرگ اور جید اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے اوردروس فقہ و اصول کو چھ سال کی مدت میں تکمیل کیا۔ مولانا سلمان حیدر سنہ 1965 عیسوی میں حوزہ علمیہ نجف اشرف کو ترک کرکے ہندوستان واپس آئے اور تبلیغ و تدریس میں مصروف ہوگئے۔
مولانا سلمان حیدر نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خدمات انجام دیں ۔ جہاں آپ نے اپنے والد کے تاسیس کردہ مدرسہ عالیہ جعفریہ کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطاکی وہیں حامدالمدارس پہانی کو بھی اپنے فیض سے سرشار کیا اور زندگی کی آخری دہائی میں اپنے وطن عزیز نوگانواں سادات میں ایک مدرسہ بنام جامعۃ المنتظر قائم کیا ۔
مولانا دیگر صفات حمیدہ کے ساتھ ساتھ ایک بے مثال مدیر بھی تھے ، آپ طلاب کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے ان کو دس گیارہ برس کی عمر میں ہی نماز شب سے مانوس کرادیتے تھے۔آپ کو عمارت کی صنعت سے متعلق باریکیاں بھی معلوم تھیں، مدرسہ کا نقشہ اپنے قلم سے ہی بناکرسرکاری دفترمیں پیش کیا اور اسی کے مطابق عمارت بنوائی نیز چمن کو خود ہی ڈیزائن کیا اور بعد کیلئے بھی ایسی راہیں چھوڑیں جس کے مطابق ادارہ آج تک ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔
آپ ایک بے مثال مدیر اور ایک مربی کامل تھے، عفو و درگذر، سلام میں پہل، اسلامی وضع قطع اور توكل على الله موصوف کی زندگی میں اچھی طرح قابل مشاہدہ ہے۔ اپنے چھوٹوں سے معافی مانگنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے ، اگر کسی طالب علم کی اتفاق سے سرزنش کردی تو اسے الگ بلا کر دلجوئی فرماتے اور اسے راضی کرلیتے تھے۔
صدر العلماء مولانا سید سلمان حیدر نے اپنی بہت زیادہ مصروفیات کے با وجود متعددتصانیف قوم و ملت کو ہدیہ کیں۔ آپ کے فرزند مولانا قرۃ العین مجتبیٰ فرماتے ہیں: صدرالعلماء سفر کی حالت میں ہوں یا حضر میں ٹرین میں ہوں یا اسٹیشن پر سحر کے وقت 3بجے کاغذلے کر تحریر کرنا شروع کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے جس وقت آپ پنتھ ہوسپیٹل دہلی میں زیر علاج تھے تو ایک دن میں ملاقات کی غرض سے اسپتال پہنچا تو دیکھا ہاتھ کی پشت پر سرنج ہے اور قلم لئے ہوئے تذکرۃالاتقیاء فی تاریخ علماء کے سلسلہ میں کچھ تحریر فرما رہے ہیں جب صدرالعلماء سے کہا: آپ یہ کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے: بیٹا! لکھ رہا ہوں۔ میں نے کہا: اگر شوق اور جذبہ تحریر درد کا احساس نہیں ہونے دے رہا ہے تو آپ یہ خیال فرمائیں سرنج کی سوئی سےانگلیوں کے مڑنے کے سبب زخم ہو سکتا ہے ۔ کہنے لگے: تم نے مولانا ہارون کا واقعہ سنا ہوگا، ان کو لکھنے کا بہت شوق و جذبہ تھا ،آخر میں کسی بیماری کے سبب انگلیاں زخمی ہوگئیں، قلم پکڑنا مشکل تھا تو وہ قلم انگلیوں سے بندھوا لیا کرتے تھے، صدرالعلماء نے یہ کہہ کر پھر لکھنا شروع کردیا ۔وہ یہ چاہتے تھے کہ اس کتاب کو سو جلدوں میں تکمیل کریں ۔ جن میں فرقہ ناجیہ، بہلول دانا، مناقب سیدالشہداء اور تکملہ تذکرہ بے بہا کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
اللہ نے آپ کو آٹھ نعمتوں اور چاررحمتوں سے نوازا ۔موصوف نے ان کی تعلیم اور تربیت پر خاص توجہ دی اور ان کو علم و فضل سے آراستہ کیا۔ صدرالعلماء کی علمی میراث کے وارث مولانا سید قرۃُ العین مجتبیٰ ہیں جو حال حاضر(1443ھ)میں جامعۃالمنتظر نوگانواں سادات کے پرنسپل ہیں۔
آخرکار یہ علم و فضل کا آفتاب 17/ شعبان سنہ 1413ھ میں غروب ہوگیا۔ آپ کی رحلت کی خبر بجلی کی رفتار کی مانند پھیل گئی چاہنے والوں کا مجمع امنڈپڑا ، غسل و کفن کے بعد آپ کے جنازہ کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ ہزاروں چاہنے والوں کی موجودگی میں اٹھایا گیا اور وصیت کے مطابق اسی قبر میں دفن کردیا گیا جو انہوں نے اپنے لئے بنوائی تھی۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص139، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔