۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا شبیہ الحسن عابدی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسیمولانا سید شبیہ الحسن عابدی نوگانوی سنہ 1352ہجری میں سرزمین نوگانواں سادات ضلع مرادآباد یوپی پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آیۃ اللہ سید سبط نبی عابدی اپنے زمانہ کے مجتہدِ مسلّم تھے۔

مولانا شبیہ الحسن نے ابتدائی تعلیم مدرسۂ باب العلم نوگانواں سادات میں آیۃ اللہ سید آقاحیدر زیدی اور علامہ سید جواد اصغر ناطق جیسے صاحبان علم وفن کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کرکے حاصل کی۔

مولانا سنہ 1960عیسوی میں عازم نجف اشرف ہوئے اور وہاں رہ کر زمانہ کے عظیم اساتذہ سے کسب فیض کرکے سنہ 1965 عیسوی میں نجف سے نوگانواں سادات واپس آئے۔

جب آپ ہندوستان واپس آگئے تو مدرسہ باب العلم کی مدیریت آپ کے کاندھوں پر آگئی جس کو انہوں نے ایک طویل مدت تک نہایت بہترین طریقہ سے نبھایا۔

مولانا تبلیغ و تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں بھی کافی مقدار میں دلچسپی ظاہر فرماتے تھے لیکن افسوس کہ آپ کے علمی آثار شائع نہ ہوسکے جن میں سے مرأۃ‎الخیال اور تحقیق‎افق وغیرہ قابل ذکر ہیں۔(تفصیل کیلئے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص57)

آپ واجبات کی ادائیگی میں نہایت سختی سے کام لیتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی واجبات کا پابند بنانا اپنا عین فریضہ سمجھتے تھے حتی کہ باب العلم میں آنے والے مہمانوں کو بھی واجبات کی ادائیگی کی طرف راغب کرتے تھے، اگر کوئی یہ کہتا کہ جناب! یہ تو مہمان ہیں! تو آپ جواب دیتے کہ کیا مہمان سے واجبات الٰہی ساقط ہوجاتے ہیں!۔

البتہ ان کی ذاتی زندگی میں نہایت درجہ کی نرمی ملاحظہ کی جاتی تھی اور اپنے شاگردوں کی بابت ایک شفیق و مہربان باپ کا کردار ادا کرتے تھے۔ آپ نوگانواں سادات کے امام جمعہ ہونے کے باوجود انتہائی سادگی میں زندگی گزارتے تھے۔

مولانا نے ایک کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت فرمائی جن میں سے کچھ شاگردوں کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں:
مولانا سیدشایان رضا چھولسی، مولانا سید ذاکر رضا رضوی چھولسی، مولانا مرزا سردار حسن سانکھنوی، مولانا مرزا دبیر حسنین سانکھنوی، مولانا محمد حسنین پھندیڑوی، مولانا محمد حسنین میرٹھی، مولانا راغب حسین، مولانا روشن علی زیدی، مولانا علی رضا کوتوالی، مولانا فتح محمدپھندیڑوی اور مولانا شیخ آصف علی رامپوری وغیرہ۔ (تفصیل کےمراجعہ کیجئے: نجوم الہدایہ، ج4، ص76)

مذکورہ شاگردوں میں اکثر شاگرد برسرروزگار ہیں اور بعض افراد حوزات علمیہ نجف، قم اور سوریہ میں علم دین کی تحصیل میں مشغول ہیں نیز دائرہ تحقیق کو وسیع کر رہے ہیں۔

مولانا مدرسہ باب العلم کی مدیریت کو سنبھالتے ہوئے تبلیغ دین میں بھی پیش قدم نظر آتے تھے، آپ نے اپنے ایک فرزند کو صنف روحانیت میں شامل کیا جن کو مولانا مسرور حسین عابدی کے نام سے جانا جاتا ہے اور حال حاضر (1442ہجری) میں مدرسہ باب العلم کی مدیریت انہی کے ذمہ ہے۔

مولانا شبیہ الحسن صاحب اپنی آخری عمر تک دین اسلام کی ترویج و اشاعت میں مشغول رہے اور آخر کار 8/جمادی الاوّل سنہ 1429ہجری میں داعی اجل کو لبیک کہا۔علماء، فضلاء، طلاب اور مؤمنین کی کثیر تعداد نے نماز جنازہ میں شرکت فرمائی اور اپنے والد کے پاس سپرد لحد کئے گئے۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج 4 ص 73 دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .