۲۶ آذر ۱۴۰۳ |۱۴ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 16, 2024
مولانا محمد طاہر بجنوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سیدمحمد طاہر زیدی عرف ملّاطاہرسن 1907 عیسوی میں سر زمین گوئلی ضلع بجنور پر پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد سید علی اظہر زیدی، گوئلی کے شریف النفس لوگوں میں سےتھے ۔ گوئلی، بجنور کےعلاقوں میں سے ایک علمی علاقہ ہے ،اس علاقہ کے لوگ ہمیشہ تعلیم یافتہ رہے ہیں جن میں سے خطیب اہلبیت مولانا شمس الحسن زیدی مرحوم ، ذاکر اہلبیت مولانا سرکار مہدی مرحوم و جسٹس رئیس الحسن زیدی مرحوم وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن گوئلی میں حاصل کی اس کے بعد امروہہ کا رخ کیا اور سید المدارس کے جیّد علماء کرام سے مستفیض ہوئے۔ امروہہ کو ترک کرنے کے بعد میرٹھ کا رخ کیا، وہاں پہنچ کر مدرسہ منصبیہ میں داخلہ لیا اور خود معراج علمی سے سرفراز ہوئے، منصبیہ عربی کالج سے فراغت کے بعد لکھنؤ کی طرف عازم سفر ہوئے اور سلطان المدارس کے عظیم اساتذہ کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا یہاں تک کہ سن 1937ء میں صدرالافاضل کی سند دریافت کی۔

تعلیم سے فراغت کے بعد مدرسہ عالیہ جعفر یہ نوگانواں سادات میں تدریس کی انجام دہی میں مشغول ہوگئے اور تشنگان علوم کو معارف اہلبیت علیہم السلام سے سیراب کرنے لگے، اسی اثنا میں مؤمنین سانکھنی ضلع بلند شہر کی دعوت پر مدرسہ کو ترک کیا اور سانکھنی چلے گئے، ایک مدت تک امام جماعت کی ذمہ داری نبھانے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا اور سلسلہ تدریس کو باقی رکھنے کے لئے لکھنؤ کا رخ کیااور جامعۃ التبلیغ میں بہت سے شاگردوں کی تربیت کی۔

آپ نے جامعۃ التبلیغ کے علاوہ جامعہ جوادیہ بنارس، حامدالمدارس پہانی، اورنٹل کالج آگرہ اوردیگر مدارس میں بھی علم وہنر کے گوہر لٹا کر مدارس کے اساتذہ و طلاب سے اپنے علم کا لوہا منوا لیا، آیت اللہ محمود الحسن خان مرحوم اپنی خود نوشت سوانح حیات میں فرماتے ہیں کہ علامہ طاہر گوئلی متقی، پرہیزگار، عظیم اور با صلاحیت شخصیت کے مالک تھے ؛وہ تدریس کے علاوہ علمی موضوعات پر بھی بات کرتے رہتے تھے۔

جن علماء نے انکو قریب سے دیکھا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ علامہ طاہر علماء کے درمیان زیادہ تر علمی مباحث پر گفتگو کرنا پسند فرماتے تھے۔ اسی لئے زندگی کے آخری وقت تک درس و تدریس کو نہیں چھوڑا۔

علامہ طاہر زیدی نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنے وطن کا رخ کیا اور وطن کے نزدیک نوگاواں سادات کے مدرسہ عالیہ جعفریہ میں دوبارہ تدریس کے سفر کو جاری کیا۔ آپ نے اپنے تدریسی سفر میں سینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی جن میں سےکچھ اسماء اس طرح ہیں: مولانا شیخ محمد ابراہیم، مولانا سید محمد عابد منصور پوری،مولانا غضنفر عباس چتوڑوی، مولانا فضل عباس پھندیڑوی، مولانا حیدر رضا شیرکوٹی،مولانا ذیشان حیدر عثمانپوری اور مولانا احتشام حیدر الہ آبادی وغیرہ ۔

علامہ طاہر زیدی اولاد کی نعمت سے محروم رہے لہٰذا اس محرومی کے احساس کو کم کرنے کی غرض سے اپنے حقیقی بھائی سید زین العباد زیدی کے پوتے سید غفران احمد زیدی عرف شنّن کو گود لے لیا جس نے مولانا کو اپنے حقیقی والد کی مانند سمجھا اور آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ آپ نے منہ بولے فرزند کی اچھی تربیت کی اور زیور علم سے آراستہ کیا جس کے نتیجہ میں سید غفران زیدی نے بھی درس و تدریس کو پسند کیا اور سن 1994 عیسوی سے(کمپوزِٹ اسکول) میرٹھ میں سینکڑوں شاگردوں کو علم کی دولت بانٹ کر مولانا کی علمی تربیت کا ثبوت دے رہے ہیں۔

آخر کار یہ علم وعمل کی جیتی جاگتی تصویر سن 1990 عیسوی میرٹھ شہرمیں ہمیشہ کے لئے نظروں سےاوجھل ہوگئی، آپ کی رحلت کی خبر بجلی کی مانند پھیل گئی، چاہنے والوں کامجمع شریعت کدہ پر امنڈ پڑا؛ شہر میرٹھ اور ان کے آبائی وطن گوئلی میں غم کے بادل چھا گئے۔ علماء، طلاب، دانشوران اور مؤمنین کے مجمع نے اپنے آنسوؤں کی سوغات کے ساتھ آپ کے جسد¬خاکی کوگوئلی میں سپرد خاک کردیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہتحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص399، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .