۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
مولانا سید تاثیر حسین زیدی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سیدتاثیر حسین زیدی سن 1291 ہجری میں سر زمین پھندیڑی سادات ضلع مرادآباد صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد "سید اشرف علی" نہایت شریف النفس اور علم دوست انسان تھے۔

آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور زحمت کش شخصیت کے مالک تھے ۔ ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی ۔عصری تعلیم کے لئےامروہہ کا رخ کیا اور حصول تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ آپ بہت لگن اور غور وفکر کے ساتھ کتابوں کو پڑھتے تھے ۔ اسکول میں سب بچوں سے ممتاز تھے اسی کے پیش نظر وزارت تعلیم سے آپ کو اسکالرشپ ملتی تھی۔ سن 1891 عیسوی میں مڈل کی سند حاصل کی اور اسی سال مدرسہ منصبیہ میرٹھ کی جانب عازم سفر ہوئے ۔

وہاں رہ کر جید اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کیے علم نحو ، صرف، منطق، فلسفہ، کلام و تفسیر وغیرہ میں مہارت حاصل کرلی تھی ۔ 18/ اکتوبر 1899 عیسوی میں لکھنؤ کا رخ کیا اور مدرسہ ناظمیہ میں نجم الملت آیت اللہ نجم الحسن کی سرپرستی میں معروف علمائے کرام سے ادبیات، فقہ اور اصول کی تعلیم حاصل کی۔ موصوف کے لئے لکھنؤ کی فضاسازگار نہیں تھی اس لئے آپ نےمرادآباد میں مولانا مظفر علی خان کی خدمت میں رہ کر تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھا جب امتحان کا وقت آتا تو لکھنؤ پہنچ کر امتحان دیتے اور اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرتے تھے اور اس طرح تعلیم مکمل کرکےممتاز الافاضل کی سند حاصل کی۔

فارغ التحصیل ہونے کے بعدمولانا تاثیر حسین نے تدریسی سلسلہ قائم کیا مدرسہ عالیہ رامپور اور مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں رہکرسینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی جن میں سےمولانا انصار حسین پھندیڑوی فاضل مشرقیات اور صدرالملت مولانا سیدمحمد مجتبیٰ نوگانوی کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔

موصوف نہایت متقی ، پرہیزگار، نیک سیرت اورمجسمہ اخلاق تھے دنیاوی خرافات اور بیہودگیوں سے بہت دور تھے۔آیت اللہ سیدنجم الحسن آپ کی پرہیزگاری کے قائل تھے، انہوں نے مدرسہ ناظمیہ کے کتابخانہ، باورچی خانہ اور مدرسہ کا پورا حساب و کتاب آپ کے ذمہ کردیا تھا۔

علمی حلقہ میں آپ کا بہت احترام تھا۔ جب آیت اللہ نجم الحسن نے عتبات عالیات کی زیارت کا قصدکیا تو موصوف کو بھی ساتھ لے جانے کا اصرار کیا لہذا آپ تعمیل حکم میں آمادہ سفر ہوئے اور عراق پہنچ کر زیارات سے مشرف ہوئے۔ عراق سے واپسی پر نجم الملت کے حکم پر مدرسہ عالیہ رامپور میں فقہ کے استاد مقرر ہوئے اور اپنے وظیفہ کو بخوبی انجام دیا۔

بہت زیادہ مصروفیات کے با وجود تصنیف و تالیف سے وابستہ رہے، موصوف کے مضامین مجلات میں نشر ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے اپنے وطن میں ایک کتاب خانہ بھی بنایا تھا جس میں قلمی کتابوں کے علاوہ مطبوعہ کتابوں کا بھی بہت بڑا ذخیرہ تھا اس میں آپ کے قلمی آثار موجود تھے۔ موصوف کی رحلت کے بعد کتابوں کی حفاظف نہ ہوسکی تمام کتابیں دیمک کی نذر ہوگئیں اسی لئے آپ کے پوتے نےکتابیں کنویں کے سپرد کردیں۔آپ نے اپنے وطن کے شجرہ کا احیاء کیا جس کو ان کے بیٹے سید مظہر حسین نے محفوظ رکھا اور اسی نسخہ سے ان کے بھائی مولانا ڈاکٹر ظفر عباس نے سلسلہ نسب کو آگے بڑھایا۔ اب اس کی کاپی بہت سے لوگوں کے پاس موجود ہے۔

اللہ نے آپ کودو بیٹیاں اور پانچ بیٹے عطا کیے جن میں سید مظہر حسین، سید قائم رضا، احسن رضا، ہاشم رضا اور ڈاکٹر مولانا ظفر عباس کے نام سر فہرست ہیں۔آپ کے پوتوں نےکراچی اور سانگلی مہاراشٹ میں سکونت اختیار کرلی ہے۔

آخر کار یہ علم و عمل کا درخشاں آفتاب سن 1351 ہجری بمطابق 1932 عیسوی میں غروب ہوگیا ، علماء، طلاب، دانشوران اور مؤمنین کی کثیر تعداد نے تشیع جنازہ میں شرکت کی اور پھندیڑی میں موجود آپ کے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص124، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/4uVMd73IB0A?si=U4Pt7iSyZeK3XK6l

تبصرہ ارسال

You are replying to: .