۱۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۶ شوال ۱۴۴۵ | May 5, 2024
بابائے فلسفہ علامہ ایوب سرسوی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | شمال ہندوستان میں آباد بستی "سرسی سادات ضلع مرادآباد" کو مردم خیز سرزمین کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے، ایسی سرزمین کو رونق بخشنے کی خاطر سن 1326ہجری میں حکیم سید شبر حسین نقوی کے دولتکدہ میں ایک حسین و جمیل بچہ کی کلکاریاں گونجنے لگیں جس کو ایوب حسین کے نام سے موسوم کیا گیا، یہ بچہ جب نوجوانی اور جوانی کے مراحل طے کرتا ہوا آسمانِ علم و عمل کی سیر کرنے لگا تو اس کے سامنے منطق و فلسفہ جیسے علوم دست ادب جوڑتے نظر آئے جس کے نتیجہ میں "بابائے فلسفہ" جیسا عظیم لقب حاصل ہوا۔

علامہ ایوب نقوی کا سلسلۂ نسب حضرت سیدعلی اشقر بن حضرت جعفرتواب کے ذریعہ ملّتِ تشیع کے دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی ذاتِ والاصفات تک پہنچتا ہے۔

موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کی اس کے بعد جامعہ ناظمیہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے۔ ناظمیہ میں قیام کے دوران ہندوستان کی مشہور شخصیتوں کی خدمت میں زانوئے¬ادب تہہ کئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر ناظمیہ کی آخری سند "ممتاز الافاضل" حاصل کی۔

علامہ کے قابل ذکر اساتذہ کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: ناصرالملت آیت اللہ سید ناصر حسین موسوی، نجم الملت آیت اللہ سید نجم الحسن رضوی، باقرالعلوم آیت اللہ سیدمحمد باقر رضوی، علامہ سید سبط حسن، ظہیرالملت علامہ سید ظہور حسین، آیت اللہ سید ابوالحسن منّن نقوی، مفتی احمد علی، مولوی صبغۃ اللہ اور مولوی محمد ایوب وغیرہ۔

بابائے فلسفہ علامہ ایوب حسین میدان خطابت کے ایسے شہسوار تھے جنہوں نے ہندوستان کی تقسیم سے پہلے، ملک کے گوشہ گوشہ میں راہوارِ خطابت کو مہمیز کرکے فن خطابت کا لوہا منوایا اور بیرونی ممالک میں سے افریقہ کے آسمانِ خطابت پر موصوف کے نورِ خطابت کی کرنیں نظر آئیں، آپ کی گفتگو ادلہ و براہین کے ہمراہ ہوتی تھی اور اپنی گفتگو کی آخری منزل تک اپنے معین کردہ موضوع پر قائم رہتے تھے۔

علامہ نے حج بیت اللہ نیز عراق و ایران کی زیارت کا شرف بھی حاصل کیا۔ موصوف کی زندگی کا اکثر حصہ درس، تدریس، تبلیغ، تالیف، تصنیف اور وعظ و ذاکری میں گزرا۔

جامعہ ناظمیہ میں استاد کے عنوان سے منتخب ہوئے، نماز کی امامت بھی فرماتے تھے اور نماز مغرب کے بعد مسائل کا سلسلہ رہتا تھا۔ موصوف کے شاگردوں کی فہرست بہت طولانی ہے، اگر ان کے اسمائے گرامی بیان کئے جائیں تو کافی طول ہوجائے گا، اختصارکے پیش نظر یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ سن 1930عیسوی سے سن 1986عیسوی کے درمیان جو شخصیتیں جامعہ ناظمیہ سے فارغ ہوکر خدمت دین کے میدان میں نظر آئیں ان سب کو علامہ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ہے۔

تالیف و تصنیف کے میدان میں موصوف نے نمایاں کام انجام دیئے ہیں جو بکھرے ہوئے موتی ہیں، کاش! کوئی جوہری آکر ان کو اکٹھااکرے اور ایک گلوبند کی شکل دیکر عروس علم کی آرائش، زیبائش اور آراستگی میں اضافہ کا سبب قرار پائے۔

علامہ کی ایک کاوش فلسفہ و منطق سے مربوط ہے جس کو "انوار العقول" کے نام سے موسوم کیا تھا لیکن حیف کہ وہ کاوش بھی آج تک کسی جوہری کی راہ دیکھ رہی ہے۔

خداوند منّان نے علامہ کو تین نعمتوں سےنوازا، جن کو زمانہ یوسف حسین، علی ایوب صہباؔد اور مسعودالحسن ساحؔل کے ناموں سے پہچانتا ہے۔ موصوف کے تینوں فرزند اخلاق و کردار کے اعتبار سے آپ کی یادگار ہیں۔

مترجمِ نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین، تاج العلماء محمد زکی، علامہ حافظ کفایت حسین اور افتخار العلماء علامہ سعادت حسین خان جیسی شخصیتیں موصوف کی ہم درس تھیں۔

علامہ موصوف میدان شاعری میں بھی سورماؤں کی صف میں نظر آتے ہیں، اسلامی انقلاب ایران کے موقع پر آپ نے ایک کلام تحریر کیا جس کا ایک مصرعہ زباں زدِ خاص و عام ہوا: ؎ "چھوٹے چھوٹے بم ہیں، یہ تسبیح کے دانے نہیں"

مذکورہ مصرعہ سے موصوف کی شاعرانہ صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کس معیار کی شاعری کیا کرتے تھے۔ آپ کا تخلص "حکمتؔ" تھا۔

آخرکار یہ علم و عمل کا درخشاں آفتاب سن 1407ہجری میں غروب ہوگیا۔ ہزاروں علماء، طلاب، اساتذہ، فضلاء اور مومنین کے حضور تاج العلماء آیت اللہ محمد زکی کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور امامبارگاہ غفرانمآب میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص201، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/r7bFC4RG9cw?si=KzpYLDKOWlu3tMTt

تبصرہ ارسال

You are replying to: .