حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ قمر الزماں رضوی چھولسی سنہ 1325ہجری میں سرزمین چھولس سادات ضلع بلندشہر صوبہ یوپی پر پیدا ہوئے۔ حالانکہ حال حاضر میں چھولس کا ضلع نوئیڈا ہے۔ موصوف کے والد جناب سیدمحمدرفیع رضوی چھولسی تھے۔
علامہ کا اصلی نام "سید محمدرضی رضوی" تھا لیکن آپ کی پھوپھی کا دیا ہوا نام "قمرالزماں" معروف ہوگیا۔ موصوف کی عمر پانچ سال تھی کہ مادر گرامی کے سایۂ عطوفت سے محروم ہوگئے اور اپنی دادی کے زیر سایہ تربیت پائی۔
آپ کی ابتدائی تعلیم چھولس سادات میں انجام پائی اور سنہ 1918 عیسوی میں منصبیہ عربک کالج میرٹھ کا رخ کیا، وہاں رہ کر بزرگ اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے جن میں سے (1)یوسف الملۃ آیۃ اللہ سید یوسف حسین امروہوی (2)آیۃ اللہ سبط حسین جونپوری۔ ، وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
منصبیہ کے بعد امروہہ کا رخ کیا اور آیۃ اللہ یوسف حسین امروہوی کے والد محترم الحاج مولانا سید مرتضیٰ حسین کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے۔ پھر سلطان المدارس لکھنؤ کی جانب سفر کیا اور باقرالعلوم آیۃ اللہ سید محمد باقر، ظہیرالملۃ مولانا سید ظہور حسین اور نجم الملۃ آیۃ اللہ سید نجم الحسن رضوی ، وغیرہ جیسے بزرگ اساتذہ کی خدمت میں رہ کر تفسیر، حدیث، فقہ، اصول اور منطق کی تعلیم حاصل کی۔
آپ نے سنہ 1922ء میں منشی، سنہ1923ء میں مولوی، سنہ1924ء میں عالم، سنہ1925ء میں فاضل فقہ، سنہ1926ء میں فاضل طب اورسنہ1928ء میں صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔
سنہ 1929ء میں دوبارہ شہر میرٹھ تشریف لائے، اپنا مطب کھولا اور بہت کم مدت میں کافی شہرت حاصل کرلی۔ سنہ 1930ء میں پنجاب یونیورسٹی سے میٹرک کیا۔
علامہ قمر الزماں بلا کے ذہین اور نہایت درجہ کےمحنتی طالب عالم تھے۔ کتابوں کا مطالعہ اپنا عین فریضہ سمجھتے تھے۔ ایسی صلاحیت کے مالک تھے کہ آپ کو کام کی تلاش میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ کام خود ہی آپ کی تلاش میں آتا تھا یہی وجہ ہےکہ سترہ سال تک مدرسہ منصبیہ میں فلسفہ و منطق کی تدریس کی اور کسی طالب علم کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ (تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: نجوم الہدایہ، ج1، ص193)
آپ کو تدریس کا تحفہ اپنے والد کی جانب سے میراث میں ملا تھا یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس میراث کی اچھی طرح حفاظت فرمائی اور بہترین طریقہ سے تدریس فرمائی۔ منصبیہ کے اراکین ان سے اس قدر خوش تھے کہ مسئولِ غذا اور ہوسٹل کا نگراں بنادیا۔ یہ دونوں کام یعنی تدریس کے ساتھ ہوسٹل کی نگرانی بھی انجام دینا بہت سخت کام تھا لیکن آپ نے دونوں ذمہ داریوں کو بخوبی نبھاکر ایک اچھی مثال قائم کردی۔ کسی کی طرف سے کبھی کوئی شکایت سننے کو نہیں ملی۔
علامہ کے زمانہ میں ایک مہمان خانہ بنوایا گیا تھا جس میں مہمانوں کو نہایت ادب و احترام کے ساتھ رکھا جاتا تھا خاص طور سے چھولس، جارچہ، عبداللہ پور، دھولڑی، عیسیٰ پور، کھروا اور سادات بارہہ کے مہمانوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا۔ تمام مہمانوں کا یہ ماننا تھا کہ یہ سارا احترام صرف قمرالزماں صاحب کا مرہونِ منت ہے۔
علامہ موصوف کی زندگی میں مایوسی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ آپ نہایت بااخلاق، با مروت اور آپ کی گفتگو عرفان و فلسفہ سے بھرپور ہوتی تھی۔ اگر کوئی مجلس پڑھنے کے لئےمدعو کرنے آتا تو اسے مایوس نہیں لوٹاتے بلکہ مجلس کا وعدہ کرلیا کرتے تھے۔
تذکرہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عرفان و فلسفہ میں ماہر تھے۔ آپ نے متعدد کتابیں تالیف فرمائیں جن میں مندرجہ ذیل کتابیں قابل ذکر ہیں: (1)راز قدرت (فلسفہ) (2)الحکمۃ الطالعۃفی شرح شمس البازغۃ (فلسفہ) (3)جامع المسائل کا ترجمہ(فقہ)۔ (تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص80)
آپ نے راز قدرت نامی کتاب ایک دہریہ کے جواب میں تحریر فرمائی تھی، وہ دہریہ وکیل تھا، جب اس کی وکالت نہ چل سکی تو قدرت خدا پر طرح طرح کے اعتراض کرنے لگا۔ علامہ نے اس کے اعتراضات کے جواب میں پوری کتاب تحریر کرڈالی۔
علامہ قمرالزماں نے سنہ 1948ء میں ہندوستان سے لاہور کی جانب سفر کیا اور وہیں پر زندگی گزارنے لگے۔ دیال سنگھ کالج لاہور میں اسلامی پروفیسر کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔
آپ نبّاضِ ادب تھے۔ اپنے زمانہ کے بہترین شعراء میں شمار کئے جاتے تھے اور آپ کا تخلص "قمرؔ" تھا۔ موصوف عربی، فارسی اور اردو میں بہترین شاعری فرماتے تھے۔
موصوف کی وفات سے چند روز قبل کے کہے ہوئے کلام کا ایک مقطع نمونہ کے طور پر اس طرح پیش کیا جاسکتا ہے:
سنجیدگی قمرؔ کو ہے شوخی کے ساتھ ساتھ - چھپتا نہیں چھپائے سے شاعر مزار میں
علامہ قمر الزماں 29/شعبان سنہ 1379ھ کی شب جمعہ میں 54/سال کے ہوئے تو پیغام اجل آگیا اور آپ جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی جانب کوچ کرگئے نیز ہزاروں مؤمنین کی موجودگی میں لاہور میں موجود مومن پورہ میکلوڈ روڈ کے معروف قبرستان میں سپرد خاک کئے گئے۔
ماخوذ از: نجوم الہدایہ، ج1، ص190، تحقیق: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی،دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2019ء۔