۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
شاعرِ اہلِ بیت(ع) ریحان اعظمی انتقال کر گئے

حوزہ/بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر ریحان اعظمی علالت کے باعث انتقال کرگئے۔ڈاکٹر ریحان اعظمی کئی روز سے علیل تھے۔ریحان اعظمی کی میت ملیر جعفرطیار امام بارگاہ منتقل کردی گئی مرحوم شاعر ریحان اعظمی نے کئی ہزار حمد ، نعت ، نوحے ، مرثیہ اور غزلیں تحریر کیں،ریحان اعظمی نے عالمی اور قومی سطح پر کئی تمغات اپنے نام کیئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،عالمی شہرت یافتہ شاعرِ اہلِ بیت ڈاکٹر ریحان اعظمی کا رضائے الہٰی سے کراچی میں انتقال ہو گیا ہے، اہلِ خانہ کے مطابق ریحان اعظمی کافی عرصے سے علیل تھے۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی کے اہلِ خانہ کے مطابق ان کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں کراچی کے نجی اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ان کی حالت سنبھل نہیں سکی اور وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی 7 جولائی 1958ء کو کراچی میں پیدا ہوئے تھے، انتقال کے وقت ان کی عمر 63 برس تھی۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی نے 1974ء میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا اور ایک طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگار وابستہ رہے۔

اس عرصے میں انہوں نے 4 ہزار سے زائد نغمات سپردِ قلم کیئے جن میں ایشیاء کا مشہور ترین گانا ’ہواہوا اے ہوا‘ اور ’خوشبو بن کر مہک رہا ہے سارا پاکستان‘ شامل ہیں، ’ہواہوا اے ہوا‘ کو معروف گلوکار حسن جہانگیر نے گایا تھا۔

ایک دور ایسا آیا جب ان کے اندر ایک انقلابی تبدیلی آئی جس کے بعد انہوں نے نغمہ نگاری سے ربط توڑ کرحمد و سلام، نعت، نوحہ، منقبت اور مرثیے سے تعلق قائم کر لیا۔

رثائی ادب میں ان کی 25 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’نوائے منبر‘، غم، ’آیاتِ منقبت‘ اور ’ایک آنسو میں کربلا‘ سمیت دیگر کئی کتب شامل ہیں۔

ریحان اعظمی نے عالمی اور قومی سطح پر کئی تمغے بھی اپنے نام کیئے۔

جدید اردو ادب کی تاریخ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریحان اعظمی کے ذکرکے بغیر نامکمل رہے گی، وہ ایک استاد، صحافی اور قلمکار تھے لیکن بنیادی طور پرآپ کا طُرۂ امتیازشاعری ہے۔

ریحان اعظمی کراچی کے متوسط طبقے کے علاقے لیاقت آباد المعروف لالوکھیت کی گلیوں میں جوان ہوئے جہاں اس زمانے میں اہلِ علم کی کثیر تعداد آباد تھی۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول لیاقت آباد سے حاصل کی جبکہ ثانوی تعلیم کے لیے سراج الدولہ کالج کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اوروہاں سے اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی کا رخ کیا۔

ڈاکٹر ریحان اعظمی نے 1974 میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا اور ایک طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگاروابستہ رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے 4000 سے زائد نغمات سپردِ قلم کیے جن میں ایشیا کا مشہورترین گانا ’ہواہوااے ہوا‘ اور ’خوشبو بن کر مہک رہا ہے سارا پاکستان‘ شام ہیں۔

شاعری کےعنفوانِ شباب میں ان کے اندر ایک انقلابی تبدیلی آئی جس کے بعد انہوں نے نغمہ نگاری سے ربط توڑکرحمد وسلام، نعت، نوحہ، منقبت اورمرثیے سے تعلق قائم کرلیا۔

رثائی ادب میں ان کی 25 سے زائد کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’نوائے منبر‘، غم، ’آیاتِ منقبت‘ اور ’ایک آنسو میں کربلا‘ سمیت دیگر کئی کتب شامل ہیں جبکہ ’ریحانِ کربلا‘ طباعت کے مراحل میں ہے۔

غزل کہے بغیر کسی بھی شاعر کی سوچ اورفکر کے معیارکی بلندی تک رسائی ممکن نہیں، ریحان اعظمی جدید شاعری کے نمائندہ شاعر ہیں ان کے دو غزلیات کے مجموعے ’خواب سے تعبیر تک‘ اور’قلم توڑدیا‘ شائع ہوچکے ہیں۔

ریحان اعظمیٰ کی رسائی ادب میں خدمات کے اعتراف میں ان کو پاکستان اور ہندوستان ساری دنیا میں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔

مربوط ویڈیو لنکسhttps://ur.hawzahnews.com/news/365352

اہل خانہ کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں طبیعت ناسازی پر ریحان اعظمی کو اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں وہ کچھ روز زیر علاج رہنے کے بعد گھر واپس آگئے تھے۔

کراچی میں 7 جولائی 1958 میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر ریحان اعظمی نے 1974 میں شاعری کا آغاز کیا۔ انہوں نے بطور نغمہ نگار 4000 سے زائد نغمات سپرد قلم کیے۔ ان کے مشہور گانوں میں ہوا اے ہوا، ’خوشبو بن کر مہک رہا ہے سارا پاکستان وغیرہ شامل ہیں، تاہم یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور ڈاکٹر ریحان اعظمی حمد و سلام، منقبت، مرثیہ اور نوحہ کی جانب مرکوز ہوگئے اور اپنی شاعری میں انہوں نے مذہب کو اہمیت دی۔

جدید اردو ادب کی تاریخ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ریحان اعظمی کے ذکرکے بغیر نامکمل ہے۔ وہ ایک استاد، صحافی اور قلمکار تھے، لیکن ان کی بنیادی پہنچان اور ان کا طرہ امتیاز شاعری خاص کر نوحہ اور مرثیے رہے۔ وہ کراچی کے علاقے لیاقت آباد المعروف لالوکھیت کی گلیوں میں جوان ہوئے جہاں اس زمانے میں اہلِ علم کی کثیر تعداد آباد تھی۔

انہوں نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول لیاقت آباد سے حاصل کی، جب کہ ثانوی تعلیم کیلئے سراج الدولہ کالج کے اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اوروہاں سے اعلیٰ تعلیم کیلئے جامعہ کراچی کا رخ کیا۔

پاکستان کے رثائی ادب میں ان کی بڑی خدمات شامل ہیں۔ انہوں نے رثائی ادب میں 25 سے زائد کتابیں بھی تحریر کیں۔ ڈاکٹر ریحان کے بارے میں عام تاثر یہ بھی ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ نوحے تحریر کیے ہیں۔ ملت جعفریہ کی جانب سے ڈاکٹر ریحان اعظمی کے انتقال پر نہایت دکھ اور ملال کا اظہار کیا گیا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .