۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
News ID: 365231
20 جنوری 2021 - 23:12
سید عبدالحسین شرف الدین موسوی عاملی

حوزہ/ آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ نے جہاں قابل قدر علمی اور مذہبی اقدامات کئے وہیں آپ کی سیاسی جد جہد بھی نا قابل فراموش ہیں ۔ فرانسیوں کے خلاف آپ کے حکم جہاد نے عالم اسلام خصوصا لبنان کو استعمار سے نجات دی اور اسی طرح فلسطین پر یہودی غاصبانہ قبضہ کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | فقیہ و مجاہد آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی عاملی ؒ  ۱۲۹۰  ؁ھ کو کاظمین میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب سید یوسف شرف الدینؒ اور والدہ آیۃ اللہ سید ہادی صدرؒکی بیٹی جناب زہرا صدر ؒ  تھیں اور جب آپ ایک برس کے ہوئے تو اپنے والد ماجد کے ہمراہ نجف اشرف چلے گئے۔ 

باب مدینۃ العلم حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے جوار میں دیندار واہل علم والدین کے زیر سایہ پروان چڑھے۔ چھ برس کی عمر میں مکتب گئے اور ایک برس بعد یعنی سات برس کی عمر میں قرآن کریم کی ایسی دلنشین تلاوت کرتے کہ سننے والوں کو بخوبی اندازہ ہوجاتا کہ یہ بچہ نوک نیزہ کے بے نظیر قاری حضرت امام حسین علیہ السلام کا حقیقی عبد ہے۔ 

نجف اشرف سے اپنے والد کے ہمراہ آبائی وطن جبل عامل آئے اور آٹھ برس کی عمر میں تعلیم کا مکمل سلسلہ شروع ہوا  جسمیں ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ 

۱۷ ؍ برس کی عمر میں چچا کی بیٹی سے شادی ہوئی اور ۲۰ ؍ برس کی عمر یعنی  ۱۳۱۰ ؁ھ میں اپنے نانا آیۃ اللہ العظمیٰ سید ہادی صدر ؒ کی ہدایت پر اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے سامرہ تشریف لے گئے۔ سامرہ میں آئے آپ کو ابھی ایک برس بھی نہیں ہوئے تھے کہ مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا شیرازی ؒ سامرہ سے نجف اشرف منتقل ہو گئے ۔ اور آپ کی پیروی میں اکثر علماء و طلاب بھی نجف اشرف چلے گئے تو آیۃ اللہ سید عبد الحسین شرف الدین بھی نجف اشرف آگئے۔ 

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین ؒ نے آیۃ اللہ شیخ حسن کربلایؒ، آیۃ اللہ شیخ محمد طہؒ ، آیۃ اللہ آخوند ملا کاظم خراسانیؒ، آیۃ اللہ سید محمد کاظم یزدیؒ، آیۃ اللہ سید اسماعیل صدرؒ ، آیۃ اللہ شیخ فتح اللہ شریعت اصفھانیؒ، آیۃ اللہ سید حسن صدرؒ سے کسب فیض کیا اور ۳۲ ؍ برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ 

مختلف فقہاء سے سند اجتہاد حاصل کر کے آپ اپنے وطن جبل عامل تشریف لائے اور اپنے والد ماجد اور برادر عالی قدر کی مدد سے جبل عامل میں حوزہ علمیہ قائم کیا لیکن ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ آپ کے والد کی رحلت ہو گئی اور اس کے کچھ ہی دن بعد آپ کے بھائی کی بھی وفات ہوگئی۔ 

اخلاقی اختلاف شان علم کے خلاف ہے اور علمائے ربانی کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ اخلاقی اختلافات اور مشکلات سے دور رہے۔ ہاں علمی اور نظریاتی اختلاف ہمیشہ رہا اور یہ علمی اور نظریاتی اختلاف نے ملک و ملت کی تعمیر اور ترقی میں نمایاں کردار نبھایا۔ آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسوی ؒ سے بھی ان کے ہم عصر افراد سے اختلاف نظر رہا لیکن کبھی بھی اس نظریاتی اختلاف کو بد اخلاقی کی نذر نہیں ہونے دیا اور اگر کسی نے انکی حمایت میں ایسا کیا تو خود آپ نے اسکی مخالفت کی۔ 

مہمان نوازی آپ کا خاصہ تھااور اگر مہمان عالم و دانشور ہوتا تو اس کا بے حد احترام فرماتے اور خدمت کرتے۔ اسی طرح آپ دنیا اور اسکی لالچ سے دور تھے  ملک فیصل نے جب آپ کو پانچ ہزار مصری لیرہ بھیجا تو آپ نے یہ کہتے ہوئے اسے لینے سے انکار کر دیا کہ میں نے پیسے کے لئے جہاد نہیں کیا۔ جب ملک فیصل کو اسکی اطلاع ہوئی تو اس نے کہا کہ میں نے اب تک ایسا اعلیٰ ظرف انسان نہیں دیکھا جو اس طرح مال دنیا کو ٹھکرا دے۔ 

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ جب لبنان پہنچے تو یہ زمانہ پہلی جنگ جہانی کا زمانہ تھا ۔ عثمانی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ جو بھی اسلحہ چلا سکتا ہے وہ فوج میں داخل ہو جائے  اور اس حکم سے صرف انہیں دینی علماء کو چھوٹ تھی جنکا نام سرکاری رجسٹر میں رقم تھا اور اس میں صرف اہلسنت اور عیسائی مذہب کے علماء کے نام ہی لکھے تھے اور شیعہ علماء اور طلاب کا نام نہ سرکاری رجسٹر میں لکھا تھا اور نہ کوئی لکھوانے والا تھا لہذا آپ نے اس سلسلہ میں اقدا م کیا اور سرکاری حکم نامہ جاری کرایا اور اس طرح شیعہ علماء و طلاب کو بھی اس قانون سے سہولت ملی جس کے نتیجہ میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ نہیں رکا اور حوزات علمیہ جاری رہے۔ 

اسلامی وحدت اور اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد و نزدیکی کے سلسلہ میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ کی کوششیں قابل قدر بلکہ نقش اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں آپ نے مصر کا سفر کیا اور وہاں علماء سے ملاقات کی ۔ جامعہ الازہر کے مفتی شیخ سلیم البشری المالکی سے خصوصی ملاقات کی اور امامت کے موضوع پر ۱۱۲ خطوط ایک دوسرے کے درمیان رد وبدل ہوئے جو بعد میں ’’المراجعات‘‘ نامی کتاب کی شکل میں طبع ہوئے۔ 

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ کی کتاب ’’المراجعات‘‘ اس وقت سے آج تک امامت کی بحث سمجھنے اورحصول ہدایت میں مشعل راہ ہے۔ بزرگ علماء نےاس عظیم کتاب کی توصیف فرمائی۔ 

بانی حوزہ علمیہ قم حضرت آیۃ اللہ العظمی شیخ عبدالکریم ؒ، مرجع عالی قدر حضرت آیۃ اللہ العظمی بروجردیؒ، استاد الفقھاء و المجتہدین آیۃاللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئیؒ، رہبرکبیر انقلاب حضرت امام خمینی قدس سرہ اور صاحب کتاب الغدیر علامہ امینی ؒ نے آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ اور آپ کی کتابوں خصوصا ’’المراجعات‘‘ اور ’’الفصول المھمہ‘‘ کی تعریف و تمجید فرمائی ہے۔ اسی طرح ’’المراجعات ‘‘ کو پڑھ کر بہت سےلوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی جنمیں جناب ڈاکٹر تیجانی سماوی حفظہ اللہ اورجناب عبدالحفیظ بنانی کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ 

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو سعودی بادشاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی اور اسے تحفہ میں قرآن کریم دیا ۔ شاہ عبدالعزیز نے قرآن کریم کی جلد کو چوما تو آپ نے اس سے کہا کہ یہ جلد تو بکری کی کھال کی بنی ہے اسے کیوں چوما تو اس نے کہا کہ چوں کہ اس کے اندر قرآن ہے اس لئے چوما تو آپ نے فرمایا ہم بھی روضہ رسولؐ کی دیواروں ، جالی اور دروازے کو صرف اس لئے چومتے ہیں کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ جس کے بعد شاہ عبدالعزیز نے زائرین کو روضہ رسولؐ کے چومنے سے روکنا بند کر دیا اگرچہ اس کے بعد کے حکام نے دوبارہ پابندی لگا دی۔ اسی طرح آپ نے حرم الہی مسجد الحرام میں نماز جماعت کی امامت فرمائی کہ آپ کی اقتدا میں بلا تفریق مذہب وملت مسلمانوں نے نماز جماعت پڑھی۔ 

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ نے جہاں قابل قدر علمی اور مذہبی اقدامات کئے وہیں آپ کی سیاسی جد جہد بھی نا قابل فراموش ہیں ۔ فرانسیوں کے خلاف آپ کے حکم جہاد نے عالم اسلام خصوصا لبنان کو استعمار سے نجات دی اور اسی طرح فلسطین پر یہودی غاصبانہ قبضہ کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ 

آخر ۸ ؍ جمادی الثانی  ۱۳۷۷ ؁ ھ کو ۸۷ ؍ برس کی عمر میں یہ آفتاب علم و ہدایت ٖغروب ہو گیا ، جنازہ لبنان سے نجف اشرف لایا گیا اور مولا و آقا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں سپرد خاک کیا گیا۔ جب آیۃ اللہ العظمیٰ آقاے سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کو آپ کے انتقال کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے درس کو تعطیل کیا اور فرمایا : ہمارے زمانے کا ہشام بن حکم گذر گیا ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .