۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
News ID: 365337
25 جنوری 2021 - 17:06
حجۃ الاسلام ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی

حوزہ/ یہ شرح اموات جاری رہی تو بہت جلد لاکھوں سے نکل کر ملینز میں چلی جائے گی۔ایسے نامساعد حالات میں اور ناسازگار صورتحال میں ایک طرف ایلوپیتھی، ہیوپیتھی اور ہربل میڈیسن کے ایکسپرٹ کو چاہئے کہ وہ سارا زور مختلف ویکسینز اور میڈیسن کی دریافت پر لگائیں ۔ یہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی 

حوزہ نیوز ایجنسی | قارئین! امریکہ میں روز بروز موت کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ ہم نے سوچا تھا  2020 اپنی نحوست کو لے کر رخصت ہوگا اور انسانیت کو 2021 میں سکھ کا سانس لینا نصیب ہو گا۔ مگر اب تو لگتا ہے 2021 سب کو مارکے ہی دم لے گا ۔ زمانے کی برائی کی مذمت نہ ہوتی تو کہتے زمانہ ہمارے ساتھ کیا سے کیا کر گیا؟  شکوتا یہ تو کہہ سکتے ہیں اے رونق محفل  دہر 
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے 
2021 کے ایک مہینہ نے سال گزشتہ کے ریکارڈ توڑ دیے - 10 ماہ سے ایک ہی روٹین ہے 
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے 
یوں ہی زندگی تمام ہوتی ہے 

ہم تو سکھ کا سانس لینے کے متمنی تھے۔ اس سال میں تو دم ہی نہیں رہا سانس ہی بند ہورہی ہے۔ دوسری لہر نے پہلی کے ریکارڈ توڑ دئے۔ گھر گھر اسپتال بنا ہے قبرستانوں کو اب اتوار کو بھی کھولا جارہا ہے۔ تمام دینی مراکزمزید قبریں خریدنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ویکسین کی بڑی امید تھی۔ویکسین تو آ گئی ہے مگر عام آدمی کو ابھی ملی بھی نہیں ہے، اس کا نتیجہ بھی 100 فی صد نہیں ہے، نہیں معلوم کتنی بار دوبارہ لگانی پڑے۔جتنی تیزی سے ویکسین آئی ہے  موت میں اتنی تیزی آگئی ہے۔ جسکا کوئی حد و حساب نہیں ہے۔امریکہ میں تین سے چار ہزار لوگ روزانہ مر رہے ہیں۔ اب تک ساڑھے تین لاکھ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ شہروں اور شاہراہوں کی رونقیں ختم ہو چکی ہیں۔ اب تو بازاروں درباروں میں ہو کا عالم ہونے لگا ہے۔ ماسک بھی اب تو ناکافی ہونے لگا ہے۔ روزگار ختم ہوگئے، بزنس ٹھپ ہوگئے، جشن ہو نہیں رہے ہیں ،محفلیں سج ہی نہیں رہیں۔ کوچ کے نقاروں کے علاوہ نقارے بج ہی نہیں رہے۔ ائیرپورٹ ویران پڑے ہیں تو ریلوے اسٹیشن خالی، بس ٹرمینلز بے رونق ہیں، تو ڈاؤن  ٹاؤنز اجڑے ہوئے ہیں۔ نہ مسجد و مرکز میں وہ رونق، نہ کلیساؤں کنیساؤں میں آمد و رفت ،مندر و گوردووارے بھی سنسان پڑے ہیں۔ پارکس میں انسانوں کی جگہ جانور آگئے کوئی شہر چھوڑ کر جارہا ہے تو کوئی خود  ساختہ ملک بدری اختیار کر رہا ہے۔ 

آکشنز بند ہیں، نیلامیاں نہیں ہو رہی ۔ بولیاں نہیں لگ رہیں صرف موت کی نیلامیاں اور بولیاں لگ رہی ہیں۔ریستوران میں کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ راہ چلتا مسافر دوسرے کو آفت سمجھتا ہے۔ جسے وائرس لگ جاتا ہے۔ وہ ہر اس شخص پر سوء ظن کرتا ہے جسے ہفتہ بھر میں ملا ہو۔ پہلے گھر میں اکا دکا لپیٹ میں آتا تھا۔ اب پورا پورا گھر پکڑ میں آ رہا ہے ۔ فیونرل ہومز اور قبرستان بہت  ہی مصروف جارہے ہیں۔ جس طرح ویک اینڈ پر ہم دل پر ہاتھ رکھ کے میل باکس چیک کرتے تھے کہ نامعلوم کتنے بل اور آگئے ہونگے ۔ہم اب دل پر ہاتھ رکھ کے فون دیکھتے ہیں کہ کتنے اور پیارے رخصت ہو گئے ہونگے؟ اب تو پیاروں کی عیادت نہیں ہو پارہی ۔جنازوں میں شرکت بھی کم ہو رہی ہے۔ ایسے لگتا ہے ہر شخص اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔جو مرا نہیں وہ پیاروں کے غم میں بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔ہمارے بہت ہی قریبی جاننے والےکام سے گھر جاتے ہوئے گاڑیوں ہی میں لقمہ اجل بن گئے۔پیر و جوان سب ہی رخت سفر باندھے ہیں۔ایسے لگتا ہے کوویڈ 19 نہیں قیامت آ گئی ہے۔وبائیں پہلے بھی آتی تھیں لیکن ان کا دورانیہ اتنا طویل نہیں ہوتا تھا۔گھر بیٹھ بیٹھ کر بھی اکتا گئے ہیں۔امریکہ کا سیٹ اپ یہ ہے کہ امیر و غریب جب تک گھر سے نکل کر کام نہ کریں تو ان کے چولہے نہیں جل سکتے۔گھر سے نکلتے ہیں تو وائرس لگنے کا خطرے  ہے۔ گھر بیٹھے رہتے ہیں تو فقر و فاقہ کا خدشہ ہے۔
اس وقت یہ محاورہ بالکل صحیح فٹ آ رہا ہے۔ 
نا جائے رفتن  نہ پائے ماندن

اگرچہ حکومت کچھ معاونت کر رہی ہےتاہم امریکہ میں اخراجات اس قدر زیادہ ہیں کہ وہ کافی نہیں ہے۔جوں جوں مرض بڑھ رہا ہے توں توں دوائیں بے اثر ہو رہی ہیں۔حتیٰ کہ ویسکین بھی 100 فی صد نتائج کی ضمانت نہیں دیتی۔قرطینہ کے لئے اگر ہسپتالوں کا رخ بھی کر لیا جائے تو گھر میں نہ مرنے والا دوسرے بیماروں سے  وائرس لے کر ہسپتال میں ضرور مر جاتا ہے۔ میڈیکل کی اعلیٰ سہولتوں کے باوجود کرونا کے مریضوں کے لئے ہسپتالوں میں بیڈز، وینٹی لیٹرز وغیرہ بہت کم ہیں۔ جو ہیں بھی وہ محفوظ نہیں ہیں۔ ہمارے کئی قریبی دوستوں کو ہسپتالوں میں جا کر وائرس لگا ۔ جو کسی اور مرض کی وجہ سے داخل ہوئے اور نتیجہ میں کرونا وائرس کا شکار ہو گئے۔یا تو وہ مر گئے یا اپاہچ ہو گئے۔مریض اگر گھر میں رہے تو اتنے  طبی آلات میسر نہیں  کہ علاج معالجہ کیا جا سکے۔

عقل انسانی ماؤف نظر آتی ہے۔سارے چارے بے سود نظر آتے ہیں۔خود ساختہ مسیحا  خود لا علاج مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔قیامت سے پہلے قیامت کا منظر نظر آ رہا ہے۔حشر سے پہلے حشر بپا ہے۔رشتے ناطے بے وقعت ہو گئے۔پیار اور محبتیں ناپید ہو گئیں۔ قربتیں دوریوں میں بدل گئیں۔امارتوں پر فقر و فاقے کے بادل گرجنے  لگے۔شداد کی جنت کو وائرس کی آندھی نے گھیر لیا۔سیف ہیون سمجھی جانے والی سرزمین کو غیر مرئی اور غیر محسوس زلزلوں نے اپنے جھٹکوں کی لپیٹ میں لے لیا۔آبادیوں پر بربادیوں کے سائے منڈلانے لگے۔

اگر یہ شرح اموات جاری رہی تو بہت جلد لاکھوں سے نکل کر ملینز میں چلی جائے گی۔ایسے نامساعد حالات میں اور ناسازگار صورتحال میں ایک طرف ایلوپیتھی، ہیوپیتھی اور ہربل میڈیسن کے ایکسپرٹ کو چاہئے کہ وہ سارا زور مختلف ویکسینز اور میڈیسن کی دریافت پر لگائیں ۔ یہ انسانیت کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔

دوسری طرف مختلف مذاہب کے روحانی پیشوا لوگوں کو یاد الہیٰ کی طرف رغبت دلائیں تاکہ بارگاہ ایزدی میں سب انسان مل کر رحم کی اپیل دائر کریں۔تیسری طرف  انسان کو انسان پر ظلم کرنے سے توبہ کرنی چاہئے۔اس لئے کہ ایسے عذاب اسی وقت آتے ہیں جب بڑے انسان چھوٹے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتے۔ چوتھی طرف معصیت الہیٰ  سے توبہ تائب ہونا چاہئے۔پانچویں طرف ہر شخص اپنا اور اپنے گھر والوں کا صدقہ دے۔چھٹی طرف عبادتگاہوں کے دروازے احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھول دئیے جائیں۔ ساتویں طرف معصوم بچوں سے انفرادی و اجتماعی  دعائیں کروائی جائیں۔ آٹھویں طرف مظلوم اقوام کا اور افراد کا قتل عام بند کرایا جائے۔نویں طرف انسان انسان کا دل دکھانا بند کر دے۔ دسویں طرف ربط  خالق و مخلوق کو استوار کیا جائے ۔ گیارہویں طرف حقوق اللہ اور حقوق الناس ادا کئے جائیں۔بارہویں طرف ہلاک شدہ اقوام سے عبرت حاصل کی جائے۔تیرہواں یتیم پروری ، غریب پروری کو فروغ دیا جائے اور چودویں طرف اس الہی مسیحا کا انتظار کیا جائے۔اور بارگاہ ایزدی میں اسے بھیجنے کی گڑگڑا کر درخواست کی جائے کہ جس کے آنے سے پوری دنیا عدل و انصاف سے بھر جائے گی اور ظلم و بربریت کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔جس الہیٰ مسیحا کی گواہی الہیٰ مسیحا ہی  دیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .