۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
آیۃ اللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ

حوزہ/ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی جس خصوصیت نے انہیں اہل علم کے درمیان ممتاز کیا وہ آپ کے علم و فقاہت کے ساتھ ساتھ آپ کا اخلاص و تقویٰ تھا ۔ ذیل میں چند نکات کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسی | آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ۱۲۳۴ ھ کو املش ایران میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب میرزا محمد علی خان مرحوم انتہائی مومن و دیندار اور علاقہ کے حاکم تھے۔ 

قرآن کریم کی تعلیم سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہوا ۔ ابتدائی تعلیم لنگرود اور رشت میں حاصل کرنے کے بعد حوزہ علمیہ قزوین تشریف لے گئے اور وہا ں استاد شیخ عبدالکریم ایروانیؒ سے فقہ واصول کی تعلیم حاصل کی۔ ۲۵ ؍ برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ 

چار برس املش میں دینی خدمات انجام دینے کے بعد حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لائے اور صاحب جواہر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسن نجفیؒ کے درس میں شامل ہوئے، صاحب جواہرؒ کی وفات کے بعد آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کے درس میں شریک ہوئے۔ 

آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی جس خصوصیت نے انہیں اہل علم کے درمیان ممتاز کیا وہ آپ کے علم و فقاہت کے ساتھ ساتھ آپ کا اخلاص و تقویٰ تھا ۔ ذیل میں چند نکات کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے۔ 

۱۔  آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے والد کی جب وفات ہوئی تو آپ نجف اشرف سے وطن تشریف لائے لیکن میراث کے سلسلہ میں بھائیوں میں اختلاف ہو گیا تو آپ بغیر کچھ لئے نجف اشرف واپس آ گئے۔  فقر و تنگدستی کے سبب حالات اتنے خراب ہوئے کہ گھر کے سامان بیچ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نجف اشرف کی گرمی میں خرید کر پانی پینے کے لئے بھی آپ کے پاس پیسہ نہ رہے۔ 

۲۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ہر وقت ذکر الہی میں مصروف ہوتے ۔ درس دینے کے لئے جب وضو کر کے نکلتے تو اپنے حافظہ سے سورہ یس کی تلاوت شروع کرتے اور بارگاہ جناب امیرؑ کے باب القبلہ پر جہاں آپ کے استاد آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کی قبر مبارک ہے وہاں سورہ یس کی تلاوت تمام فرماتے۔ 

۳۔ شرعی احکام بیا ن کرنے میں احتیاط فرماتے اور تحقیق و جستجو کے بعد ہی مسئلہ بیان کرتے۔ 

۴۔ حالت احتضار میں جب آپ کے پیروں کو قبلہ کی سمت کیا گیا تو آپ نے اپنے پیر سمیٹ لئیے اور فرمایا : بغیر وضو کے قبلہ کی جانب پیر پھیلانا مناسب نہیں۔ 

۵۔ شرعی رقومات لینے سے پرہیز فرماتےکہ ہندوستان کے ایک تاجر نے آپ کو شرعی رقوم دینی چاہی تو آپ غضب ناک ہو گئے ۔ بعد میں جب آپ سے غصہ کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔ 

۶۔ منقول ہے کہ آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ  کے چار اہم شاگردوں میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے طلاب کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی اور آپ اپنے شاگردوں سے فقط تعلیمی رابطہ رکھتے کہ وہ آپ سے فقط علم حاصل کریں۔

۷۔  آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کے بعد مختلف علماء نے آپ سے مرجعیت کی گذارش کی لیکن آپ نے قبول نہیں کیا اور جب آپ کے شاگردوں نے اصرار کیا تو آپ نے انہیں آیۃ اللہ العظمیٰ میرزائے شیرازی ؒ کی جانب رجوع کا حکم دیا ۔ آپ کا ماننا تھا کہ مجتہد کو سیاست کا بھی ماہر ہونا چاہئیے لہذا آپ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزائےمحمد حسن شیرازیؒ کو اس کا اہل سمجھتے تھے اور انکی مکمل حمایت فرماتے تھے اور علمائے نجف سے انکی تائید بھی کرائی تا کہ دشمن شیعوں کو دو حصوں میں تقسیم نہ کر سکے۔ تنباکو کی حرمت کے فتوی میں آپ نے میرزائے شیرازی کی مکمل حمایت فرمائی۔ 

۸۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اہل علم کا خاص احترام فرماتے تھے کہ جب آیت اللہ شیخ حسن مامقانی رہ نے آپ سے نجف میں قیام کی گذارش کی تو آپ نے یہ کہتے ہوئے سفر ترک کیا کہ میں آپ کو عادل فقیہ سمجھتا ہوں اس لئے آپ کی اطاعت واجب ہے۔ جب کہ شیخ حسن مامقانی کا شمار آپ کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔ 

۹۔  آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے والدین کی تین بار قضا نمازیں ادا فرمائی۔ 

۱۰۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ علماء کی حرمت کا خاص خیال رکھتے تھے  کہ ایک شخص علماء کی توہین میں مشہور تھا ۔ ایک دن وہ ایک نشست میں آپ کے ساتھ تھا تو آپ نے حکم دیا کہ جس پیالی میں اس نے چائے پی ہے اسے دھلا جائے ۔ آپ کی اس تنبیہ سے اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ آئندہ اہل علم کی توہین کی جرات نہ کر سکا۔ 

آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے فقہ، اصول و تفسیر وغیرہ میں متعدد کتابیں تالیف فرمائیں۔ اسی طرح آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدیؒ،   آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقیؒ،   آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ فضل اللہ نوریؒ اور  آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفھانیؒ سر فہرست ہیں۔ 

۱۴ ؍ جمادی الثانی ۱۳۱۲؁ ھ کو نجف اشرف میں آپ کی وفات ہوئی اور اپنے مولا و آقا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا حرم آپ کی آخری آرام گاہ قرار پایا۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .