۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
News ID: 395178
13 دسمبر 2023 - 19:12
ماہ جمادی الثانی

حوزہ/ ماہ جمادی الثانی قمری سال کا چھٹا مہینہ ہے۔ چونکہ اس ماہ کی تین تاریخ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روز شہادت ہے اور بیس تاریخ آپؑ کا یوم ولادت ہے لہذا اسے ماہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی کہہ سکتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ماہ جمادی الثانی قمری سال کا چھٹا مہینہ ہے۔ چونکہ اس ماہ کی تین تاریخ صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا روز شہادت ہے اور بیس تاریخ آپؑ کا یوم ولادت ہے لہذا اسے ماہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی کہہ سکتے ہیں۔

ماہ جمادی الثانی کی مناسبتیں مندرجہ ذیل ہیں ۔

یکم جمادی الثانی

1۔ وفات مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ محمد فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1428 ہجری

چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم و مجاہد ، فقیہ اہل بیتؑ، مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ محمد فاضل لنکرانی رحمۃ اللہ علیہ حرم اہل بیتؑ عش آل محمدؑ قم مقدس میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد ماجد آیۃ اللہ فاضل قفقازی حوزہ علمیہ قم کی نامور علمی شخصیت تھے اور آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ یعنی امام زادہ موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ شہید آیۃ اللہ سید مصطفیٰ خمینی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ہم درس اور مباحث تھے۔ آپ نے آیۃ اللہ مرتضیٰ حائری ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی ، رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی اور صاحب تفسیر المیزان علامہ سید محمد حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہم سے کسب فیض کیا اور 30 برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے ۔ آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے، آپ نے مختلف موضوعات پر کتابیں لکھیں اور علماء و افاضل اور محققین کی تربیت کے لئے قم مقدس میں ‘‘مرکز فقہی ائمہ اطہار علیہم السلام’’ قائم کیا۔ آپ کے فرزند ارجمند فقیہ اہل بیت آیۃ اللہ محمد جواد فاضل دامت برکاتہ حوزہ علمیہ قم کے نامور استاد و فقیہ ہیں۔

3؍ جمادی الثانی

1۔ شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سن 11 ہجری

سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مططفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اللہ و رسول ؐکی امانت بتایا اور امیرالمومنین ؑ کو اس عظیم امانت الہی کی رعایت کا حکم دیا کہ جب جانشین پیغمبرؐ پر انکی حفاظت واجب ہے تو دوسروں پر بدرجہ اولیٰ ان کی حفاظت، احترام اور اطاعت واجب و لازم ہے۔ لیکن افسوس بعد رسولؐ نام نہاد امتیوں نے اللہ و رسول ؐ کی اس امانت کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا اور ایسے ظلم ڈھائے کہ بی بی ؑ کو مرثیہ پڑھنا پڑا ’’صُبَّـــــتْ عَلَیَّ مَصَائِــبُ لَوْ أَنَّهَا۔ صُبَّـتْ عَلَـى الْأَیَّـامِ صِـرْنَ لَیَالِیَا‘‘ (اے بابا! آپؐ کے بعد ) مجھ پر وہ مصائب پڑے اگر وہ مصائب دنوں پر پڑتے تو تاریک شب میں بدل جاتے ۔

جو بیت، بیوت انبیاء ؑ سے افضل تھا اس پر حملہ کیا گیا، آیت تطہیر کے نزول کے بعد جس دروازے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھ ماہ تک مسلسل آ کر سلام کرتے تھے۔ جہاں بغیر اجازت فرشتہ بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا وہاں ظالم آگ اور لکڑی لے کر آ گئے اور امانت الہی در و دیوار کے درمیان پیس دی گئی اور بطن مادر میں نواسہ رسول ؐ حضرت محسن ؑ کو شہید کر کے ایک تہائی سادات اور نسل رسولؐ کو ختم کر دیا گیا ۔

طمانچے سے ناموس الہی کا چہرہ اور کان زخمی کر دیا گیا، پہلو تو پہلے ہی درو دیوار کے درمیان شکستہ ہو گیا تھا اور اسی غم و اندوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی یادگار بیٹی وقت مغرب اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ حسب وصیت امیرکائناتؑ نے شب کی تاریکی میں غسل و کفن کے بعد قبر کے حوالے کیا۔ دفن کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کر کے مرثیہ پڑھا۔ ’’یا رسول اللہ!آپ پر سلام ہو میری جانب سے اور آپ کی بیٹی کی جانب سے جو ابھی آپؐ کے جوار میں آئی ہیں اور عنقریب آپؐ سے ملحق ہو جائیں گی۔ یا رسول اللہ! آپؐ کی پاک و منتخب بیٹی کے فراق میں میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ میری طاقت نے جواب دے دیا ہے۔ آپؐ کے فراق کی عظیم مصیبت کے بعد یہ مصیبت میرے لئے سخت ہے۔

آخر میں نوحہ و مرثیہ کرتے ہوئے فرمایا ’’فَلَقَدِ اُسْتُرْجِعَتِ اَلْوَدِيعَةُ‘‘ (یا رسول اللہ ) امانت واپس ہو گئی۔اب میرا غم جاویدانی ہے اور میری راتیں بیداری میں بسرہوں گی۔ یہاں تک کہ آپ سے ملاقات کر لوں۔

یعنی یا رسول اللہ ! جو امانت صحیح و سالم میرے حوالے کی تھی وہ واپس ہو گئی لیکن زخموں سے چور ہے ، پہلو شکستہ ہے، رخسار نیلے ہیں ، بازو زخمی ہیں، کان بھی زخمی ہیں۔

2۔ شہادت علامہ مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ۔ سن 1399 ہجری

شہید مطہری اور استاد مطہری کے نام سے مشہور چودہویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ عالم ، مجاہد، فقیہ، فلسفی، متفکر، اہل قلم جناب علامہ مرتضیٰ مطہری رحمۃ اللہ علیہ صاحب تفسیر المیزان علامہ سید محمد حسین طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ اور رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کے شاگرد تھے۔ آپ کا شمار اپنے دور میں ایران کے موثرترین شیعہ علماء میں ہوتا تھا۔ آپ امام خمینی قدس سرہ کی تحریک انقلاب کے خاص سرگرم رکن تھے لہذا ایران کے ظالم شاہ کی جانب سے مختلف طرح کی سزاؤں اور پابندیوں کے شکار ہوئے، 13 سال کی ملک بدری کے بعد جب امام خمینی قدس سرہ ایران واپس آئے تو آپ نے جہاز کے اندر پہنچ کر ان کا استقبال کیا۔

شہید مطہری رحمۃ اللہ علیہ کے گرانقدر علمی آثار حوزہ ہائے علمیہ اور یونیورسٹیوں کے نصاب تعلیم میں شامل ہیں نیز طالبان حقیقت کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ آپ نے بے دینی اور گمراہی کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا اور لوگوں کو آگاہ کیا۔ آپ کی شہادت پر رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ایران میں شمسی تاریخ کے مطابق آپ کا یوم شہادت یوم معلم کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔

4؍ جمادی الثانی

1۔ مرگ ہارون عباسی سن 193 ہجری

پانچواں عباسی خلیفہ ہارون جو اپنی بے دینی، گمراہی ، ظلم و ستم اور شقاوت میں اپنی مثال آپ تھا، دین کو اپنی ذاتی فائدے کے لئے استعمال کرنا اس کا خاصہ تھا ۔ اس ملعون نے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو 14 برس اذیت ناک قید خانوں میں قید کیا یہاں تک امام عالی مقام شہید ہو گئے۔ شیعوں خصوصاً سادات کا سخت ترین دشمن تھا اس نے نہ جانے کتنے شیعوں اور سادات کو قید کیا اور انہیں شہید کر دیا۔ بعض روایات کے مطابق ہارون ملعون نے ہی مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک پر حملہ کی بدعت ایجاد کی اور زائرین کو زیارت سے منع کیا۔

ہارون ملعون دوران سفر خراسان میں بیمار ہوا اور وہیں واصل جہنم ہو گیا ۔ اسے حمید بن قحطبہ کے باغ میں دفن کیا گیا، یہ حمید بن قحطبہ وہی شخص ہے جس نے ہارون کے حکم پر قیدخانہ میں قید 60 سادات کو بے جرم و خطا شہید کر دیا تھا ۔ اس کے بعد حمید نے نماز و روزہ اور دیگر عبادتیں ترک کر دی تھیں کہ جب پوچھنے والے نے عبادتوں کے ترک کرنےکا سبب پوچھا تو بتایا کہ اولاد رسولؐ کے قتل کے بعد آپؐ کی شفاعت قطعاً اس کا نصیب نہیں ہو گی لہذا اب عبادتوں کی انجام دہی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد ہارون رشید کے شطرنجی بیٹے مامون نے آپؑ کو اپنے باپ کی قبر کے پاس دفن کیا جس پر شاعر اہل بیت جناب دعبل خزائی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے شعر کہا جو آج بھی امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں آپ کی ضریح مقدس کے پاس دیوار پر تحریر ہے۔

قبران فی طوس خير الناس كلّهم/ و قبر شرّهم، هذا من العبر ما ينفع الرّجس من قرب الزكیّ و لا/ على الزکیِّ بقرب الرجس قمن ضرر

طوس میں دو قبریں ہیں ، ایک سب سے بہترین انسان کی قبر ہے اور ایک سب سے بدترین انسان کی جو سبب عبرت ہے۔ نہ رجس و پلیدکو پاکیزہ انسان کی قربت سے فائدہ ہوا اور نہ ہی اس رجس و پلید کی قربت اس پاک انسان کو نقصان پہنچا سکی۔

2۔ شہادت علامہ سید مجتبیٰ نواب صفوی رحمۃ اللہ علیہ سن 1375ہجری

5؍ جمادی الثانی

1۔ وفات شارح نہج البلاغہ عبدالحمید بن ھبۃ اللہ المعروف بہ ابن ابی الحدید معتزلی سن 656 ہجری

7؍ جمادی الثانی

1۔ وفات عالم ، فقیہ و مفسر علامہ ابو عبداللہ زنجانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1360 ہجری

آپ نے قرآنی علوم پر مختلف کتابیں لکھیں جنمیں ’’تاریخ القرآن‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ جسمیں قرآن کریم کے نزول، جمع آوری، نقطہ گذاری اور ترجموں پر مفصل بحث کی ہے۔

8؍ جمادی الثانی

1۔ وفات علامہ سید عبدالحسین شرف الدین عاملی رحمۃ اللہ علیہ (صاحب کتاب المراجعات) سن 1377 ہجری

اسلامی وحدت اور اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد و نزدیکی کے سلسلہ میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ کی کوششیں قابل قدر بلکہ نقش اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی سلسلہ میں آپ نے مصر کا سفر کیا اور وہاں علماء سے ملاقات کی ۔ جامعہ الازہر کے مفتی شیخ سلیم البشری المالکی سے خصوصی ملاقات کی اور امامت کے موضوع پر 112 خطوط ایک دوسرے کے درمیان رد وبدل ہوئے جو بعد میں ’’المراجعات‘‘ نامی کتاب کی شکل میں طبع ہوئے۔

آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالحسین شرف الدین موسویؒ کی کتاب ’’المراجعات‘‘ اس وقت سے آج تک امامت کی بحث سمجھنے اورحصول ہدایت میں مشعل راہ ہے۔ بزرگ علماء نےاس عظیم کتاب کی توصیف فرمائی۔

آیۃ اللہ العظمیٰ آقاے سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کو جب آپ کے انتقال کی خبر ملی تو انھوں نے اپنے درس کو تعطیل کیا اور فرمایا : ہمارے زمانے کا ہشام بن حکم گذر گیا ۔

9؍ جمادی الثانی

1۔ وفات علامہ سید محمد کاظم قزوینی رحمۃ اللہ علیہ سن 1415 ہجری

معروف شیعہ عالم، خطیب ، مبلغ و مولف جناب علامہ سید محمد کاظم قزوینی رحمۃ اللہ علیہ 12؍ شوال سن 1348 ہجری کو کربلا معلیٰ میں پیدا ہوئے ، آپ کے والد علامہ سید محمد ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ کربلا معلیٰ کے مشہور عالم دین تھے ، آپ نے حوزہ علمیہ کربلا معلیٰ کے عظیم اساتذہ رحمۃ اللہ علیہم سے کسب فیض کیا اور اپنے استاد آیۃ اللہ سید مہدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر سے شادی کی۔

علامہ سید محمد کاظم قزوینی رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف ممالک کے تبلیغی سفر کئے اور کئی ممالک میں کتب خانے قائم کئے ، آپ کی کتابوں میں ‘‘موسوعۃ الامام الصادق علیہ السلام’’ زیادہ مشہور ہے۔

علامہ سید محمد کاظم قزوینی رحمۃ اللہ علیہ صدام اور اس کی بعثی حکومت کے خلاف تھے لہذا اس نے آپ کو جیل میں قید کیا۔ جیل سے رہائی کے بعد آپ کویت گئے اور کویت میں 7 سال قیام کے بعد قم مقدس ایران آ گئے اور دینی خدمات میں مصروف ہو گئے۔

9؍ جمادی الثانی سن 1315 ہجری کو قم مقدس میں رحلت فرمائی اور وہیں دفن ہوئے۔ چونکہ آپ کی وصیت تھی کہ آپ کو کربلا معلیٰ میں دفن کیا جائے لہذا جب حالات بہتر ہوئے تو 17 سال بعد نبش قبر کر کے جنازہ قم مقدس سے کربلا لے جایا گیا اور وہیں دفن ہوئے۔ 17 سال بعد جب قبر کھودی گئی تو جنازہ تر و تازہ تھا۔

10؍ جمادی الثانی

1۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے اہل نجران سے معاہدہ کیا۔ سن 37 ہجری

12؍ جمادی الثانی

1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قیادت میں 400 سپاہیوں پر مشتمل لشکراسلام خیبر کی جانب روانہ ہوا۔ سن 7 ہجری

13؍ جمادی الثانی

1۔ وفات حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا ۔ سن 64 ہجری

مبلغہ کربلا زوجہ امیرالمومنین علیہ السلام مادر سرکار وفا حضرت ام البنین سلام اللہ علیھا دنیا کی واحد خاتون ہیں جنھوں نے اولاد زہرا سلام اللہ کو اپنے اور اپنی اولاد پرہمیشہ مقدم رکھا بلکہ اپنی اولاد کو اولاد سیدہ ؑ پر قربان فرمایا ۔

صدف وفا حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا اہل بیت اطہار علیہم السلام کی محبت سے سرشار ، اسی محبت و اطاعت پر اپنے بچوں کی تربیت فرمائی اور شجاعت وفصاحت سے اہل بیت ؑ کی پاسبانی کی۔

14؍ جمادی الثانی

1۔ وفات آیۃ اللہ حبیب اللہ رشتی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1312 ہجری

آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی جس خصوصیت نے انہیں اہل علم کے درمیان ممتاز کیا وہ آپ کے علم و فقاہت کے ساتھ ساتھ آپ کا اخلاص و تقویٰ تھا ۔ ذیل میں چند نکات کی جانب اشارہ کیا جا رہا ہے۔

1۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے والد کی جب وفات ہوئی تو آپ نجف اشرف سے وطن تشریف لائے لیکن میراث کے سلسلہ میں بھائیوں میں اختلاف ہو گیا تو آپ بغیر کچھ لئے نجف اشرف واپس آ گئے۔ فقر و تنگدستی کے سبب حالات اتنے خراب ہوئے کہ گھر کے سامان بیچ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نجف اشرف کی گرمی میں خرید کر پانی پینے کے لئے بھی آپ کے پاس پیسہ نہ رہے۔

2۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ہر وقت ذکر الہی میں مصروف ہوتے ۔ درس دینے کے لئے جب وضو کر کے نکلتے تو اپنے حافظہ سے سورہ یس کی تلاوت شروع کرتے اور بارگاہ جناب امیرؑ کے باب القبلہ پر جہاں آپ کے استاد آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کی قبر مبارک ہے وہاں سورہ یس کی تلاوت تمام فرماتے۔

3۔ شرعی احکام بیان کرنے میں احتیاط فرماتے اور تحقیق و جستجو کے بعد ہی مسئلہ بیان کرتے۔

4۔ حالت احتضار میں جب آپ کے پیروں کو قبلہ کی سمت کیا گیا تو آپ نے اپنے پیر سمیٹ لئے اور فرمایا : بغیر وضو کے قبلہ کی جانب پیر پھیلانا مناسب نہیں۔

5۔ شرعی رقومات لینے سے پرہیز فرماتے کہ ہندوستان کے ایک تاجر نے آپ کو شرعی رقوم دینی چاہی تو آپ غضب ناک ہو گئے ۔ بعد میں جب آپ سے غصہ کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا : اس کے بغیر چارہ بھی نہیں تھا۔

6۔ منقول ہے کہ آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کے چار اہم شاگردوں میں آپ کو نمایاں مقام حاصل تھا لیکن اس کے باوجود آپ نے طلاب کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی اور آپ اپنے شاگردوں سے فقط تعلیمی رابطہ رکھتے کہ وہ آپ سے فقط علم حاصل کریں۔

7۔ آیۃاللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کے بعد مختلف علماء نے آپ سے مرجعیت کی گذارش کی لیکن آپ نے قبول نہیں کیا اور جب آپ کے شاگردوں نے اصرار کیا تو آپ نے انہیں آیۃ اللہ العظمیٰ میرزائے شیرازی ؒ کی جانب رجوع کا حکم دیا ۔ آپ کا ماننا تھا کہ مجتہد کو سیاست کا بھی ماہر ہونا چاہئیے لہذا آپ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازیؒ کو اس کا اہل سمجھتے تھے اور انکی مکمل حمایت فرماتے تھے اور علمائے نجف سے انکی تائید بھی کرائی تا کہ دشمن شیعوں کو دو حصوں میں تقسیم نہ کر سکے۔ تنباکو کی حرمت کے فتوی میں آپ نے میرزائے شیرازی کی مکمل حمایت فرمائی۔

8۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اہل علم کا خاص احترام فرماتے تھے کہ جب آیت اللہ شیخ حسن مامقانی رہ نے آپ سے نجف میں قیام کی گذارش کی تو آپ نے یہ کہتے ہوئے سفر ترک کیا کہ میں آپ کو عادل فقیہ سمجھتا ہوں اس لئے آپ کی اطاعت واجب ہے۔ جب کہ شیخ حسن مامقانی کا شمار آپ کے شاگردوں میں ہوتا تھا۔

9۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے والدین کی تین بار قضا نمازیں ادا فرمائی۔

10۔ آیۃاللہ میرزا حبیب اللہ رشتی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ علماء کی حرمت کا خاص خیال رکھتے تھے کہ ایک شخص علماء کی توہین میں مشہور تھا ۔ ایک دن وہ ایک نشست میں آپ کے ساتھ تھا تو آپ نے حکم دیا کہ جس پیالی میں اس نے چائے پی ہے اسے دھلا جائے ۔ آپ کی اس تنبیہ سے اس کا حوصلہ پست ہو گیا اور وہ آئندہ اہل علم کی توہین کی جرات نہ کر سکا۔

2۔ وفات آیۃ اللہ میرزا احمد آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ ۔ سن 1395 ہجری

چودہویں صدی کے عظیم شیعہ عالم، عارف، فقیہ، مجتہد، معلم ، شاعر ، فیلسوف آیۃ اللہ میرزا احمد آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ کے سب سے چھوٹے فرزند تھے۔ آپ نے آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسینی نائنی رحمۃ اللہ علیہ، بانی حوزہ علمیہ قم مقدس آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبد الکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیا عراقی رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید حسین بروجردی رحمۃاللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور اجتہاد کی سند حاصل کی۔

آیۃ اللہ میرزا احمد آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ تہران کے مشہور عالم و فقیہ تھے، آپ کو علوم عقلی و نقلی کے ساتھ ساتھ قدیمی علم طلب، علم ریاضی میں بھی مہارت تھی۔ نیز آپ خوش خط بھی تھے۔

15؍ جمادی الثانی

1۔ جنگ جمل ۔ سن 36 ہجری

2۔ ولادت امام زین العابدین علیہ السلام سن 38 ہجری (ایک روایت)

16؍ جمادی الثانی

1۔ شہادت آیۃ اللہ سید حسن شیرازی رحمۃاللہ علیہ (بانیٔ حوزہ علمیہ سید زینب سلام اللہ علیہا دمشق و حوزہ علمیہ لبنان)۔ سن 1400 ہجری

16؍ جمادی الثانی

1۔ شہادت شہید ثالث قاضی نواللہ شوستری رحمۃ اللہ علیہ سن 1019 ہجری

مغل بادشاہ اکبر کے انتقال کے بعد جہانگیر بادشاہ ہوا جو کہ انتہائی درجہ متعصب اور سفاک تھا۔ اگرچہ زمانے کی ستم ظریفی آج تک یہی رہی کہ اس ظالم و جابر، سفاک و خونریز کو عدل و انصاف کا علمبردار بتایا گیا لیکن قاضی نوراللہ شوشتری رحمۃ اللہ علیہ کا بے جرم و خطا قتل اس کی حقیقت کو دنیا کے سامنے واضح کرتا رہے گا۔

جہانگیر ملعون کے حکم پر آپ کو برہنہ کر کے بدن پر خاردار کوڑے لگائے گئے، جلاد نے اتنے کوڑے مارے کہ آپ کے جسم کا گوشت کٹ کٹ کر آپ کے بدن سے جدا ہو گیا اور آپ شہید ہو گئے۔ شہادت کے بعد بے غسل و کفن آپ کے جنازہ کو مزبلہ پر پھینک دیا گیا جسے بعد میں دفن کیا گیا۔ دشمن نے اپنے خیال خام میں سمجھا کہ قتل آپ کا خاتمہ ہے، بے شک قتل خاتمہ ہے لیکن شہادت خاتمہ نہیں بلکہ علامت بقا ہے۔ آگرہ میں موجود آپ کا روضہ اہل ایمان کی زیارت گاہ ہے جہاں سالانہ ہزاروں زائرین زیارت کا شرف حاصل کرتے ہیں اور آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں گمنام ہو گئے۔

2۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ سن 1281ہجری

خاتم الفقہاء حضرت شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ 1214 ہجری کو دزفول میں پیدا ہوئے۔ حصول علم اور فقاہت و اجتہاد کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد مسند تدریس کی زینت ہوئے اور متعدد علماء، فقہاء، مجتہدین اور محققین کی تربیت کی۔ آپ کے بعد کے تمام علمائے اعلام، مراجع کرام، آیات عظام نے بلا واسطہ یا با واسطہ آپ سے کسب فیض کیا ہے۔

19؍ جمادی الثانی

1۔ حضرت عبداللہ علیہ السلام اور حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والدین) کی شادی ہوئی۔

20؍ جمادی الثانی

1۔ ولادت با سعادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ۔ سن 5 بعثت

2۔ ولادت رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ۔ سن 1320 ہجری

رہبر کبیر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ آپ اللہ کے عبد صالح، رسول اکرم کے حقیقی پیروکار، امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سچے شیعہ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے با مقصد اور با معرفت عزادار تھے۔

21؍ جمادی الثانی

1۔ وفات حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا (اسیران کربلا کی مدینہ منورہ واپسی کے بعد

22؍ جمادی الثانی

1۔ دسترخوان امام حسن علیہ السلام

2۔ وفات جناب ابوبکر سن 13 ہجری

3۔ وفات علامہ محمد تقی بہلول رحمۃ اللہ علیہ سن 1426 ہجری

آقا محمد تقی بہلول ؒکی دو اہم خصوصیات

1۔ قدرت حافظہ: آپ کومکمل قرآن کریم، نہج البلاغہ کے اکثر خطبات، صحیفہ سجادیہ کی بہت سی دعائیں، مفاتیح الجنان میں دعائے جوشن کبیر، دعائے عدیلہ، دعائے مشلول، دعائے توسل، دعائے کمیل، اور زیارت عاشورہ وغیرہ حفظ تھیں۔ اسی طرح دو لاکھ اشعار کہ جن میں سے ایک لاکھ بیس ہزار شعر خود کہے تھے یاد تھے۔ حوزہ علمیہ کے نصاب تعلیم کی بہت سی ادبی اور فقہی کتابیں اور منظومہ شبزواری یاد تھی۔

2۔ آقا محمد تقی بہلول ؒ سگریٹ اور چائے کے شدید مخالف تھے اور اسے مسلمانوں کی گھریلو معیشت کے لئے خطرناک سمجھتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ نشہ آور اشیاء اور چائے استعمار کی سازش ہے جو انسان کے جسم و معیشت کے لئے نقصان دہ ہے۔ سال کے جن ایام میں روزہ رکھنا حرام ہے انکے علاوہ آپ پورے سال روزہ رکھتے۔ دہی ، روٹی اور چند مخصوص پھل ہی وہ بھی بہت کم نوش فرماتے تھے۔

27؍ جمادی الثانی

1۔ شہادت سفیر شہید جناب سلطان علی بن امام محمد باقر علیہ السلام ۔ سن 116 ہجری

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے مظلوم سفیر و فرزند حضرت سلطان علی علیہ السلام نے 27 ؍ جمادی الثانی 116 ہجری کو کاشان میں جام شہادت نوش فرمایا۔ شہادت سے قبل آپ نے اپنے ایک بھائی کے تحفظ ، خط کے ذریعہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کو تمام حالات سے مطلع کرنے (کہ کیسے حالات بدلے اور جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کی طرح آپ شھید کئے گئے) اور اپنے جنازے کو دفن کرنے کی وصیت فرمائی۔ آپ کو آپ کے مقتل سے کچھ فاصلہ پہ دفن کیا گیا جہاں آج الحمد للہ روضہ و بارگاہ ہے اور پوری دنیا سے عاشقان آل محمد علیھم السلام زیارت کے لئے آتے ہیں اور کرامات کا ظھور ہوتا ہے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اپنی خواہر گرامی کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کے میزبان جناب موسی بن خزرج سے اردھال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میری کچھ زمینیں وہاں ہیں تو امام علیہ السلام نے فرمایا "نعم الموضع الاردھار" اردھال بہترین مقام ہے۔

28؍ جمادی الثانی

1۔ حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے رسول اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شیر خواری کے لئے جناب حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالیٰ علیہ کے حوالے کیا۔

29؍ جمادی الثانی

1۔ وفات امام زادہ حضرت سید محمد علیہ السلام ، سن 252 ہجری

امام زادہ سید محمد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت سوسن سلام اللہ علیہا کے عظیم المرتبت فرزند اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھای تھے۔ آپ کے ایمان، تقوی، اخلاص اور اطاعت کو دیکھ کر عوام تو عوام خود خواص کو یہ شبھہ ہوتا تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپ ہی امام ہوں گے۔ لیکن آپ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت سے دو برس پہلے ہی 29 ؍ جمادی الثانی 252 ؍ ہجری کو اپنے خالق سے جا ملے۔ مروی ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی اور غسل و کفن انجام پا گیا تو امام علی نقی علیہ السلام نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے فرمایا’’يَا بُنَيَّ أَحْدِثْ لِلَّهِ شُكْراً فَقَدْ أَحْدَثَ فِيكَ أَمْراً (ائے میرے بیٹے! اللہ نے تمہارے لئے نیکی کی تم بھی اس کا شکر ادا کرو۔الغيبہ (للطوسي)، صفحہ203)

امام زادہ سید محمد ؑ کی عظمت کے فقط شیعہ قائل نہیں ہیں بلکہ اہل سنت کو بھی آپ کی فضیلتوں کا اقرار ہے اور وہ بھی اپنی مرادیں پانے کے لئے آپ کے مزار مقدس پر حاضر ہوتے ہیں۔ اور جب داعش عراق میں ہر جانب تباہی مچا رہے تھے اور ہر روضہ کو منہدم کرنا چاہتے تھے تو انھوں نے آپؑ کے روضہ پر بھی حملہ کیا لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب داعش کے تمام حملے آپ کے روضہ کے قریب ناکام ہوتے نظر آئے اور آپ کے روضہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Syed Razi Ghalib Mehdi PK 13:30 - 2023/12/14
    0 0
    ماشااللہ ۔ آپ سے گزارش ھے کہ ہر ماہ کے شروع ہونے سے ایک دو دن پہلے اسی طرح کی تفصیلات دیا کیجیے شکریہ