تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। تیرہویں اور چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، مجاہد، مرجع تقلید اور رہبر آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد حسن حسینی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ۱۵ جمادی الاول ۱۲۳۰ ھ کو شیراز میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب میرزا محمودؒ اہل علم اور ایک ماہر کاتب تھے، میرزاے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کمسنی ہی میں سایہ پدری سےمحروم ہو گئے تو آپ کے ماموں جناب میرزا حسین موسوی المعروف بہ مجد الاشرافؒ نے آپ کی کفالت فرمائی۔
میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ چار برس کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا ، دو برس میں قرآن کریم کی تلاوت اور فارسی ادب سیکھا، چھ برس کی عمر میں عربی ادب نحو و صرف کی تعلیم کا آغاز کیا اور دو برس میں ابتدائی تعلیم مکمل کر لی۔ معروف خطیب اور واعظ میرزا ابراہیم شیرازی سے آیات و روایات، موعظہ و خطابت کی ایسی تعلیم حاصل کی کہ آٹھ برس کی عمر میں استاد کے حکم سے ایک دن نماز ظہر کے بعد مسجد وکیل شیراز کے منبر پر تشریف لے گئے اور کتاب ’’ابواب الجنان‘‘ سے کچھ مطالب اپنے حافظہ سے بیان کئے۔ جناب مجد الاشرافؒ کی دلی تمنا تھی کہ ان کا بھانجہ ایک ماہر خطیب اور واعظ بنے لہذا انہیں ایک نامور واعظ کے سرپرستی میں دیا، آپ کو اللہ نے حافظہ کی دولت سے ایسا مالا مال کیا تھا کہ ’’ابواب الجنان‘‘ کے سخت سے سخت مطالب اگر دو بار پڑھتے تو انہیں یاد ہو جاتا۔
مہربان ماموں کی وفات کے بعد میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۲ هھ کو اصفہان تشریف لے گئے اور مدرسہ صدر میں داخلہ لیا جہاں جناب شیخ محمدتقی ایوانکی ؒکے درس میں شرکت کی، جب انکا انتقال ہوا تو جناب میر سید حسین مدرس بیدآبادیؒ کے درس میں شریک ہوئے، ۱۵ برس کی عمر میں کتاب شرح لمعہ کی تدریس فرمائی اور ۲۰ برس سے کم عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو گئے۔
یہاں یہ نکتہ بھی قابل ہے کہ چونکہ آپ کے والد شیراز کے ایک نامور عالم و مبلغ تھے لہذا نوجوانی میں ہی آپ کو وہ تمام مناصب اور مراتب ملے جن پر وہ فائز تھے لیکن آپ نے ان پر اکتفاء نہیں کی بلکہ بلندی کے سفر کو جاری رکھتے ہوئے ان تمام مناصب کو خیرباد کہا اور ۱۲۵۹ ھ میں کربلائے معلی تشریف لے گئے اور وہاں آیۃ اللہ العظمی محمد حسن نجفی ؒ(صاحب جواہر)، آیۃ اللہ العظمی حسن کاشف الغطاءؒ(فرزند آیۃ اللہ العظمی جعفر کاشف الغطاءؒ)، آیۃ اللہ العظمی شیخ مشکور حولائیؒ اور آیۃ اللہ العظمی سید ابراہیم قزوینی ؒسے کسب فیض کیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ میرزائے شیرازیؒ کا ارادہ تھا کہ نجف اشرف میں حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی زیارت کر کے وطن واپس چلے جائیں لیکن جب نجف اشرف پہنچے تو آیۃ اللہ العظمی شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے علمی مرتبہ سے واقف ہوئے تو ان کے درس میں شریک ہوگئے اور پوری زندگی نجف اشرف میں بسر کرنے کا ارادہ کر لیا۔ آپ شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگردوں میں تھے کہ استاد نے اپنی کتاب ’’فرائد الاصول‘‘ کی تصحیح کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی جسے آپ نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ شیخ انصاریؒ بارہا فرماتے تھے کہ میں صرف تین لوگوں کے لئے درس کہتا ہوں میرزائے شیرازیؒ، میرزا حبیب اللہ رشتی ؒاور حسن نجم آبادیؒ۔ میرزائے شیرازیؒ استاد کی مجلس درس میں بہت آہستہ کلام کرتے تھے جب وہ کلام کرتے تو شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ اپنے دوسرے شاگردوں کو یہ کہتے ہوئےخاموش رہنے کا حکم دیتے کہ میرزائے شیرازی ؒکلام کر رہے ہیں۔
۱۲۸۱ ھ میں شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے رحلت فرمائی تو آپ کے نزدیکی شاگردوں آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسن آشتیانیؒ، آیۃ اللہ العظمیٰ حسن نجم آبادیؒ، آیۃ اللہ العظمی میرزا عبدالرحیم نہاوندیؒ اور آیۃ اللہ العظمی میرزا حبیب الله رشتیؒ نے جدید مرجع تقلید کے انتخاب کے لئے مشورہ کیا تو آیۃ اللہ العظمی میرزا حسن آشتیانی رحمۃ اللہ علیہ نے میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی مرجعیت کی تجویز پیش کی جسے سب نے قبول کیا، میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مخالفت کی لیکن جب علماء نے بہت اصرار کیا تو قبول فرمایا۔
۱۲۸۷ ھ میں آیۃاللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، مکہ مکرمہ میں موسی بغدادی کے گھر میں قیام فرمایا، جب مکہ کے حاکم شریف عبداللہ حسنی کو آپ کے آنے اطلاع ہوئی تو اس نے چاہا کہ آپ اس کے یہاں تشریف لے جائیں لیکن آپ نے اس کی خواہش قبول نہیں کی اور فرمایا:"جب دیکھو کہ علماء حکام کے یہاں ہیں تو وہ بدترین علماء ہیں اور وہ بدترین حکام ہیں، جب حکام کو علماء کے یہاں پاو تو وہ بہترین علماء ہیں اور وہ بہترین حکام ہیں۔" حاکم مکہ شریف حسنی خود آپ سے ملنے آیا۔
آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد حسن حسینی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا ارادہ تھا کہ مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کر لیں لیکن ممکن نہ ہو سکا تو آپ نے مشہد مقدس کا ارادہ کیا لیکن وہاں بھی جانا ممکن نہ ہو سکا تو ماہ شعبان ۱۲۹۰ ھ میں آپ سامرہ تشریف لے گئے۔ سامرہ میں آپ کی سکونت کے سبب بہت سے علماء و طلاب بھی سامرہ پہنچ گئے اور وہاں حوزہ علمیہ قائم ہو گیا۔
میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کو مرجعیت مطلق حاصل تھی، آپ نے حوزہ علمیہ کو ترقی سے ہمکنار کیا، آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں آیۃ اللہ العظمی سید محمدکاظم طباطبایی یزدیؒ، آیۃ اللہ العظمی آخوند ملا محمد کاظم خراسانیؒ، آیۃ اللہ العظمی شیخ فضل الله نوریؒ، آیۃ اللہ العظمی سید اسد الله اصفہانیؒ، آیۃ اللہ العظمی سید اسماعیل صدرؒ، آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد تقی شیرازیؒ، آیۃ اللہ العظمی میرزا حسین نوریؒ، آیۃ اللہ العظمی آقا رضا همدانیؒ، آیۃ اللہ العظمی ملا فتحعلی سلطان آبادیؒ اور آیۃ اللہ العظمی سید محمد اصفہانیؒ سر فہرست ہیں۔ آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد حسن حسینی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں میں سے بعض کو دینی، سیاسی اور قومی مسائل کے حل کے لئے انتخاب کیا اور یہی شاگرد آپ کی مختلف تحریکوں جیسے تنباکو کی حرمت، افغانی شیعوں پر حملہ روکنے میں کام آئے۔
آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد حسن حسینی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے سامرہ میں مستقل سکونت کے سبب جہاں حوزہ علمیہ آباد ہوا وہیں اس شہر میں امن و امان قائم ہوا، آپ نے زوار اور عوام کے لئے حمام تعمیر کرائے، گھڑی لگوائی اور بہت سےتعمیری اور فلاحی امور انجام دئیے نیز آپ کے حسن اخلاق اور مجاہدت نفس سے سبھی لوگ متاثر تھے۔
میرزائے شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام و انسانیت کی فلاح و بہبود کی خاطر بہت سے اہم اقدامات کئے اور تحریکیں چلائیں، جنمیں سے مندرجہ ذیل زیادہ مشہور ہیں۔
۱۔ آیۃ اللہ العظمی میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے جب سامرہ میں قیام فرمایا تو دشمن نے سازش کی کہ شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلاف ایجاد کر دے لیکن آپ نے اپنی حکمت عملی سے انہیں شکست دی اور اس راہ میں اپنا مال ، عزت و آبرو حتی اولاد کی قربانی پیش کی۔
۲۔جب قاجاری حاکم ناصرالدین شاہ نجف اشرف پہنچا تو آپ نےاس سے ماضی کی رائج رسم کے بر خلاف امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے روضہ میں ملاقات کی۔
۳۔ افغانستان میں شیعوں کے قتل عام روکنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔
۴۔ قاجاری حاکم ناصر الدین شاہ جب یورپ گیا تو ایسا معاہدہ کیا جسمیں عالم اسلام کا عموما اور ملت ایران کا خصوصی نقصان تھا۔ ایران کے مختلف شہروں میں لوگ علماء کی قیادت میں سڑکوں پر اتر آئے تو آپ نے ایک تاریخی فتوی دیا کہ ’’تنباکو اور توتون کا استعمال امام زمانہ علیہ السلام سے جنگ کے مترادف ہے۔‘‘ جس کا اثر خود بادشاہ کے قصر میں قابل مشاہدہ تھا کہ تمام حقے پھینک دئیے گئے اور جب بادشاہ نے اپنی زوجہ سے سوال کیا کہ کس کے حکم پر تنباکو کے استعمال کو حرام سمجھا تو زوجہ نے کہا کہ جس نے ہمیں آپ کے لئےحلال کیا ہے۔ ناصر الدین شاہ نے مجبور ہو کر یورپ سے معاہدہ ختم کر دیا جس سے عالم اسلام کو فتح مبین نصیب ہوئی۔ لیکن جب آپ کو اس کامیابی کی خبر دی گئی تو آپ نے گریہ فرمایا۔ جب آپ سے گریہ کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اب تک دشمن کو ہماری طاقت کا پتہ نہیں تھا لیکن اب اسے پتہ چل گیا ہے لہذا وہ اس کے لئے کام کرے گا۔
آخر ۲۴ شعبان ۱۳۱۲ ھ کو یہ آفتاب علم و عمل سامرہ میں غروب ہو گیا، غسل و کفن کے بعد امامین عسکریین علیہماالسلام کے روضہ کا طواف کرایا گیا اور جنازہ حسب وصیت نجف کی جانب روانہ ہو گیا جس بستی سے جنازہ گذرتا وہاں بلا تفریق مذہب و ملت لوگ اشکبار آنکھوں سے استقبال کرتے اور نوحہ پڑھتے، کربلائے معلی میں حضرت امام حسین علیہ السلام اور باب الحسین حضرت عباس علیہ السلام کے روضہ کا طواف کرایا گیا اسی طرح نجف میں امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے روضہ کا طواف کرا کر جنازہ دفن کر دیا گیا۔ وفات کے بعد ایک برس تک عالم اسلام میں مختلف مقامات پر تعزیتی جلسے اور مجالس ترحیم منعقد ہوئیں۔