۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
معروف شاعر اہلبیت (ع) رضا سرسوی انتقال کرگئے

حوزہ/ ہندوستان کے مشہورو معروف شاعر اہلبیت جناب رضا سرسوی صاحب کچھ دیر قبل دار فانی سے سار بقاء کوچ کر گئے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے مشہورو معروف شاعر اہلبیت جناب رضا سرسوی صاحب نے رضائے الہٰی کے سبب اس دارِ فانی سے کوچ کیا۔ شعر و ادب کی دنیا میں وہ ممتاز شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی مشہور نظر ان کی مقبولیت کا خاص مرکز بنی۔ “ماں“ موت کی آغوش میں جب تھک کے سو جاتی ہے ماں۔۔۔۔

مرحوم ایک، شستہ و شگفتہ اخلاق کے حامل، وجیہ وپروقار، متقی و پر ہیز گار،صاحب دل وصاحب حال علم وفن کے سفیر،اپنی ذات میں بے نظیر،دین اسلام کے مخلص و ہمدرد اور اہل بیت رسول کے وفادار اور شیدایی تھےجو ایک عمر اپنی متحرک شخصیت کی خوشبوؤں سے اور اپنی دلنشیں، نازک مزاج اور گل افشاں شاعری سے ملک و بیرون ملک خاص کر سرزمین سرسی سادات کو معطر کرتے رہے۔
 
حق تعالی حضرت علیہ الرحمہ کی دینی مساعی کو قبول فرمائے اور اپنی رضاء و رحمت اور آخرت کی راحت و سعادت سے ہمکنار کرے۔

ہم حوزہ نیوز ایجنسی کی جانب سے اس سانحہ ارتحال پر تمام سوگوار و لواحقین کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں دعا گو ہیں کہ خداوندعالم آپ سبھی حضرات بالخصوص پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

شاعر اہلبیت جناب رضا سرسوی مرحوم کی تدفین کل بروز منگل 4 بجے سہ پہر انکے وطن سرسی سادات میں ادا کی جائے گی۔

انکی مشہور نظم ملا خطہ فرمائیں

موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں -رضا سرسوی

موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں​

موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں​

جاتے جاتے پھر گلے بچے سے ملنے کے لئے
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں​

روح کے رشتوں کی یہ گھرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں​

بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں​

ہڈیوں کا رس پلاکر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں​

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں​

ماردیتی ہے طمانچہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں​

کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں​

گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں​

دیکے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں​

لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں​

ایسا لگتاہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں​

دیر ہوجاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں​

مرتے دم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں​

حال دل جاکر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں​

تھام کر روضے کی جالی جب تڑپتاہے کوئی
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں​

گمرہی کی گرد جم جائے نہ میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں​

اپنے پہلو میں لٹاکر روز طوطے کی طرح
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں​

عمر بھر غافل نہ ہونا ماتم شبیر سے
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں​

دوڑ کر بچے لپٹ جاتے ہیں اس رومال سے
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں​

یاد آتا ہے شب عاشور کا کڑیل جواں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں​

اللہ اللہ اتحاد صبر لیلا اور حسین
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں​

سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دم
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں​

سب سے پہلے جان دینا فاطمہ کے لال پر
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں​

یہ بتا سکتی ہے بس ہم کو رباب خستہ تن
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں​

شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں​

اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں​

باپ سے بچے بچھڑجائیں اگر پردیس میں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں​

جب تلک یہ ہاتھ ہیں ہمشیر بے پردہ نہ ہو
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں​

جب رسن بستہ گزرتی ہے کسی بازار سے
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں​

شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں​

جناب رضا سرسوی​


 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .