۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
علوی گرگانی

حوزہ/ آیۃ اللہ العظمیٰ علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ توحید و رسالت کی گواہی کے بعد جو چیز لازمی ہے وہ اہلبیت علیہم السلام کی محبت و ولایت ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے صرف اپنے والد ماجد کے فقدان پر گریہ و عزاداری نہیں کی بلکہ اندیشہ تھا کہ کہیں دین کا فقدان نہ ہو جائے۔ کہیں 23 برس کی تمام زحمتیں ختم نہ کر دی جائیں۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیموت و حیات نظام قدرت میں شامل ہے۔ جس نے بھی اس سینہ گیتی پر قدم رکھا ہے اسے ایک دن یہاں سے جانا ہے۔ ہر روز بلکہ ہر لمحہ نہ جانے کتنے لوگ آغوش مادر کی زینت بنتے ہیں اور نہ جانے کتنے آغوش موت میں چلے جاتے ہیں۔ جو لوگ دنیا میں اپنی دنیا کے لئے جیتے ہیں وہ دنیا کی فنا ہونے والی نعمتوں میں گم ہو جاتے ہیں اور آخرت کا خسارہ انکا مقدر بنتا ہے۔ لیکن اسی کے برخلاف جو دنیا کو آخرت کی کھیتی سمجھتے ہیں۔ انکی دنیوی زندگی بھی کامیاب ہوتی ہے اور آخرت میں سعادت انکا نصیب ہوتا ہے۔
انہیں مردان الہی میں سے ایک مرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمیٰ آقا سید محمد علی علوی گرگانی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ تھے۔ آپ شہر مرتضیٰ علیہ السلام نجف اشرف میں بضعۃ المصطفیٰ حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت یعنی 20 جمادی الثانی 1359 ہجری کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد آیۃ اللہ سید سجاد علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ نجف اشرف میں گرگان کے ایک عظیم فقیہ تھے۔
1365 ہجری میں جب آپ کی عمر سات برس تھی اپنے والد ماجد کے ساتھ ایران تشریف لائے اور ان سے قرآن، ریاضی اور گلستان کی تعلیم حاصل کی۔ اسکے بعد ادب، مغنی، مطول اور شرح لمعہ پڑھی۔
جب آپ 16 برس کے ہوئے تو گرگان سے حجاج کے ایک قافلہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ گئے مناسک حج کی ادائگی کے بعد مدینہ منورہ، بیت المقدس فلسطین، شام کی زیارت کرتے ہوئے نجف اشرف پہنچے۔ اس پورے سفر میں آپ نے لوگوں کو اعمال حج کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دی۔
جب آیۃ اللہ العظمی سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کو اطلاع ملی کہ آپ کے والد ماجد آیۃ اللہ سید سجاد علوی رحمۃ اللہ علیہ نجف اشرف تشریف لائے ہیں تو وہ ان سے ملنے آئے تو انہیں پتہ چلا کہ آپ حصول علم کی خاطر نجف اشرف میں قیام کرنا چاہتے ہیں۔ آیۃ اللہ العظمی سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اگر یہ حوزہ علمیہ قم میں تعلیم حاصل کریں تو بہتر ہے کیوں کہ وہاں دو خصوصیات پائی جاتی ہیں ایک تدریس دوسرے خطابت۔یعنی یہ قم میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم بھی دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ بھی کر سکتے ہیں۔
لہذا آپ قم مقدس تشریف لے آئے جہاں چار برس میں آیۃ اللہ شیخ مصطفی اعتمادی رحمۃ اللہ علیہ سے مطول، آیۃ اللہ ستودہ سے شرح لمعہ، آیۃ اللہ میرزا محمد مجاهدی تبریزی رحمۃ اللہ علیہ سے مکاسب اور آیۃ اللہ سید محمد باقر سلطانی طباطبایی رحمۃ اللہ علیہ سے کفائہ کی تعلیم حاصل کی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ نے تین برس 1377 ہجری سے 1380 ہجری تک آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ کے درس خارج میں شرکت کی۔ قابل ذکر ہے کہ آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں آپ سب سے کمسن تھے، 8 سال رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ کے اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔ جب امام خمینی قدس سرہ ایران سے جلا وطن ہو گئے تو 12 سال آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد محقق داماد رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ و اصول کے درس خارج میں شرکت کی۔ آپ نے 15 سال آیۃ اللہ العظمیٰ مرتضیٰ حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ کے درس خارج میں شرکت کی آپ اپنے استاد کے بیان کردہ مطالب کو لکھتے اور اپنا حاشیہ تحریر کر کے انکی خدمت میں پیش کرتے تھے کہ ایک دن استاد نے فرمایا: اب آپ کو میرے درس میں آنے کی ضرورت نہیں آپ خود درس خارج دیں۔
اسی طرح آپ نے چند سال آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا موسوی گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ کے درس خارج میں شرکت کی، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ کے درس خارج میں نماز جمعہ کی بحث پڑھی اور مطالب تحریر فرمائے، چند برس آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عباس علی شاہرودی رحمۃ اللہ علیہ کے فقہ کے درس میں شرکت کی اور کتاب طہارت پڑھی۔
آیۃ اللہ العظمیٰ علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ نے 17 برس کی عمر میں درس کے ساتھ ساتھ تدریس بھی شروع کی۔ آپ نے عربی ادب کی کتابوں سے اپنے تدریسی سفر کا آغاز کیا اور آخر میں درس خارج دینے لگے۔
اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد آپ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا موسوی گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے جب انہوں نے آپ کی صلاحیتوں کو ملاحظہ کیا تو گرگان جانے سے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ قم میں ہی رہیں۔
آیۃ اللہ العظمیٰ گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد مومنین خصوصا مازندران کے مومنین نے آپ سے توضیح المسایل کا مطالبہ کیا تو 1412 ہجری میں آپ نے توضیح المسائل فارسی زبان میں پیش کی جس کا بعد میں عربی اور اردو میں ترجمہ ہوا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ اہلبیت اطہار علیہم السلام کی محبت اور الفت سے سرشار تھے جب آپ سے امیرالمومنین علیہ السلام کی ولایت کے سلسلہ میں آیت پوچھی گئی تو آپ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 85 "وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ" یعنی اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ " کو بیان کرتے ہوئے فرمایا یہ ولایت کے لئے بہترین آیت ہے جو بھی مولا علی علیہ السلام کے بغیر دین چاہے گا وہ قابل قبول نہیں ہے۔ مولا علی علیہ السلام کی اولاد ہونا کمال نہیں بلکہ انکی ولایت کا ہونا کمال ہے۔ ہم جتنا بھی اللہ کا شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمیں ایسے گھرانے میں پیدا کیا جو ولایت والا گھرانہ ہے۔
اسی طرح جب عامہ کے کسی خطیب جمعہ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مصائب میں شک ایجاد کرنا چاہا اور آپ کو اسکی اطلاع ملی تو فرمایا: خطباء کی ذمہ داری ہے کہ دلیلوں سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دفاع کریں تا کہ مستقبل میں کوئی اور بی بی کی مصیبت میں شک ایجاد کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ علوی گرگانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ توحید و رسالت کی گواہی کے بعد جو چیز لازمی ہے وہ اہلبیت علیہم السلام کی محبت و ولایت ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے صرف اپنے والد ماجد کے فقدان پر گریہ و عزاداری نہیں کی بلکہ اندیشہ تھا کہ کہیں دین کا فقدان نہ ہو جائے۔ کہیں 23 برس کی تمام زحمتیں ختم نہ کر دی جائیں۔ لہذا آپ نے گریہ کیا، احتجاج کیا۔ آج (ایام عزائے فاطمی میں) مومنین و مومنات کی عزاداری، سینہ زنی اور گریہ بی بی سلام اللہ علیہا سے محبت اور ولایت کی دلیل ہے۔ آیت تطہیر میں رجس کو اہلبیت علیہم السلام سے دور بتایا گیا ہے۔ لوگوں نے رجس سے ظاہری کثافت مراد لی جب کہ اس سے معنوی برائیاں مقصود ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام نے نہ کبھی بت پرستی کی اور نہ کبھی کوئی خلاف دین کام انجام دیا جب کہ دوسرے لوگ اس سے بری نہیں تھے۔
افسوس علم و عمل، فقاہت و اجتہاد کا نیر تاباں 11 شعبان المعظم 1443 ہجری کو قم میں غروب ہو گیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .