۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
آیۃ اللہ سید طیب موسوی جزائری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیۃ اللہ سید طیب موسوی جزائری سن 1344ہجری میں علم فن کے خانوادہ میں، محلہ کٹرہ لکھنؤ(ہندوستان) کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ موصوف کا سلسلہ نسب چھ وسیلوں سے دنیائے تشیع کے مشہورومعروف عالم و محدث "سیدنعمت اللہ جزائری" تک اور انیس وسیلوں سے ساتویں امام حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ آپ کے والد "مفتی سید محمد علی جزائری"، آپ کے چچا "مفتی اعظم سید احمد علی جزائری" اور آپ کے دادا "آیۃ اللہ مفتی سید محمد عباس شوشتری جزائری" علمائے نجف، اور لکھنؤ کے عظیم علمائے اعلام میں شمار کئے جاتے ہیں۔

طیب موسوی بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے، آپ کی پرورش اہل علم خانوادہ میں ہوئی؛ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی، قرآن مکمل کیا نیز منبر سے وعظ و نصیحت اور مجالس کا آغاز کیا، آپ نے بارہ سال کی عمر تک اپنے والد کی خدمت میں رہ کر مقدمات کی تعلیم حاصل کی۔

آپکا بچپن انتہائی کرب و الم میں گزرا، گیارہ سال کے تھے کہ والدہ کا داغ مفارقت مل گیا اور جب بارہ سال کے ہوئے تو سایہ پدری سے محروم ہوگئے لیکن آپ نے شکست قبول نہیں کی بلکہ اپنی کوشش کو جاری و ساری رکھا۔

اپنے چچا کے پاس حوزہ کی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ساتھ انگلش اور ریاضی میں بھی مہارت حاصل کی۔ تقریباً گیارہ سال کربلااور نجف کے حوزات علمیہ میں رہ کر درجہ اجتہاد تک رسائی حاصل کی۔

ان زحمات کا نتیجہ، آپ کے اندر قوت اجتہاد کا پیدا ہونا تھا جس کو آپ نے توضیح المسائل کے ذریعہ ثابت کردیا؛ ایسی توضیح المسائل تحریر فرمائی کہ زمانہ کے مشہور و معروف علماء نے تعریف و تمجیدکرتے ہوئے اجتہاد کے اجازے مرحمت فرمائے، آیۃ اللہ سید محمد جواد تبریزی نے بقلم خود آپ کے لئے اجازہ اجتہاد تحریر فرمایاجس کی دوسرے علماء نے بھی تائید فرمائی۔

جن علماء و مجتہدین نے موصوف کی تعریف و تمجید کی ہے ان میں سے : آیۃ اللہ العظمیٰ سیداحمدعلی موسوی جزائری(لکھنؤ)، آیۃ اللہ العظمیٰ سیدمحسن الحکیم (نجف)، آیۃ اللہ العظمیٰ سیدابوالقاسم خوئی (نجف)، آیۃ اللہ العظمیٰ سیدمحمدجوادتبریزی(نجف)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم رشتی(نجف)، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ آقابزرگ تہرانی(نجف)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدرضا گلپائیگانی(قم)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی(قم)، آیۃ اللہ العظمیٰ سید احمد خوانساری(تہران) وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔

آیۃ اللہ طیب جزائری نے مدرسہ شبیریہ(نجف) سے فقہ و اصول کا درسِ خارج دینا شروع کیا اور کافی طلاب کی تربیت فرمائی۔ اس کے بعد دیگر مدارس میں بھی تدریس کا سلسلہ قائم کیا اور کافی تعداد میں طلاب کو درس دیا۔

شہرقم میں آپ کا درسِ تفسیر کئی سال تک جاری و ساری رہا۔ سن1955عیسوی سے سن2013عیسوی تک تفسیر قرآن تحریر فرماتے رہے جس کا محور"ولایت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہماالسلام" رہا۔

آیۃ اللہ طیب جزائری، اپنی کتاب "البراہین الاثنیٰ عشر علیٰ وجود الامام الثانی عشر" کے سبب بہت زیادہ مشہور ہوئے جو مرکز تخصصی مہدویت سے شائع ہوئی تھی، اس کتاب میں امام زمانہ عج کے وجود پر عقلی دلائل پیش کئے گئے تھے۔ انہوں نے اس کتاب میں عقلی دلائل کے ساتھ مختلف دلیلیں بھی پیش کیں، قرآن اور دیگرمذاہب کی مختلف کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے بارہویں امام عج کے وجود کو ثابت کیا ہے۔ یہ کتاب فارسی، اردو اور انگلش تینوں زبانوں میں شائع ہوئی ہے جس کی وجہ سے موصوف کو ماہ فروردین سن1394شمسی میں آستان قدس حسینی سے انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا۔

آیۃ اللہ جزائری نے تقریباً سوکتابیں چھوڑی ہیں، آپ نے شیعہ کتابوں کے احیاء میں بہت اہتمام کیا۔ موصوف کی بعض مشہور و معروف تصانیف مندرجہ ذیل ہیں: آفتاب شہادت، ابوتراب، اسلام کی آرزو، تاریخ نجف و کربلا، اوحدالناس در حالات زندگی مفتی عباس، سیدجزائری(حالات زندگی سیدنعمت اللہ جزائری)، حق القولین فی مسئلۃ المسح علیٰ القدمین، اللمعۃ الساطعۃ فی التحقیق الصلاۃ الجمعۃ، البراہین الاثنیٰ عشرعلیٰ وجود الامام الثانی عشر، تفسیر علی ابن ابراہیم قمی باتذہیب، کشف الاسرارفی شرح الاستبصار، ترجمہ بحار الانوار حالات حضرت زہرا، ترجمہ بحارالانوارحالات امام حسینؑ، ترجمہ بحارالانوارحالات شام، ترجمہ تفسیرنمونہ جلدششم، ترجمہ منتخب الرسائل وغیرہ۔

آپ نے مؤسسہ علوم آل محمدکی بنیاد رکھی تاکہ فقہ،سیرت، تفسیر، تاریخ وغیرہ کی بیش بہا کتابیں نشر کی جاسکیں،اس کے ذریعہ انہوں نے اسلامی معاشرہ کی بہت بڑی خدمت انجام دی۔ پانچ سال تک مسجد جمکران میں امام جماعت کی ذمہ داری نبھائی۔

اپنے جد امجد"سیدنعمت اللہ جزائری" کے علمی سرمایہ کو زندہ رکھنے کے لئے کافی زحمتیں اٹھائیں آیۃ اللہ جزائری عربی، اردو اور انگلش زبان میں ماہر تھے اسی لئے مختلف ممالک کا سفر کیا مثلاً عرب امارات، کویت، سیریا، لبنان، لندن، جرمن، ہالینڈ، کنیڈا وغیرہ ان کے علاوہ تبلیغ دین کے سلسلہ سےبعض یورپی ممالک اورعرب ممالک کے سفربھی کئے۔

آیۃ اللہ طیب جزائری علمی اور تبلیغی سرگرمیوں کے علاوہ ضرورتمندوں کی مدد کا خاص اہتمام فرماتے تھے اور بہت سے بے سرپرست خانوادوں کی کفالت بھی کرتے تھے؛ اسی چیز کے پیش نظر "دارالایتام آل محمدصلی اللہ علیہ وآلہ" کی بنیاد ڈالی۔

آخرکار یہ علم و فضل کا آسمان اتوار کی صبح پندرہ ربیع الاوّل سن1437ہجری میں شہرقم میں خداکی بارگاہ میں چلا گیا؛ سولہ ربیع الاوّل سن1437ہجری میں آیۃ اللہ سیدمحمدعلی موسوی جزائری(امام جمعہ و نمائندہ ولی فقیہ خوزستان) کی قیادت میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور معصومہ قم سلام اللہ علیہا کے حرم میں دفن کیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص155، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .