۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مفتی احمد علی شوشتری

حوزه/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی، کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزه نیوز ایجنسی | مفتی احمد علی شوشتری صاحب 25 رجب المرجب سنہ 1303 ہجری میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد  مفتی سید محمد عباس  شوشتری صاحب قبلہ تھے۔ 

مفتی صاحب تین سال کی عمر میں شفقتِ  پدری سے محروم ہوگئے  اور آپ نے   اپنی  والدہ  کے زیرِ سایہ پرورش پائی۔   احمدعلی صاحب نے سنہ 1312 سے 1317 ہجری تک  مدرسہ سلطان المدرس میں مولانا جعفر حسین صاحب اور مدرسہ ناظمیہ میں آیۃ اللہ نجم الحسن صاحب کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے۔ اس وقت  ان کی توجہ تحصیل علم کی طرف  نہ تھی  بلکہ وظائف و اوراد اور عبادات وغیرہ کی طرف مائل تھے ۔ جب سنہ 1318 ہجری میں  آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ساتھ  زیارت عتبات عالیات کے لئے ایران اور عراق گئے تو موصوف کے دل میں تحصیل علم کا شوق پیدا ہوگیا۔ اس وقت   ان کے پاس کسب معاش کا کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ 

مفتی شوشتری صاحب نے بہت سے اساتذہ سےکسب فیض کیا مگر آیۃ اللہ سید کاظم بہبہانی اور آیۃ اللہ شیخ غلام حسین مازندرانی   سے بہت زیادہ فیض اٹھایا۔ مفتی احمد علی صاحب  نے رات دن تحصیل علوم میں بہت محنت کی اور ہندوستانی طلاب  کی  ایک بڑی  تعداد کو درس دینا شروع کردیا۔  

مفتی اعظم نے نجف سے ہندوستان مراجعت سے چار پانچ سال قبل  درس خارج دینا شروع کردیا تھا، ہندی علماء میں سے یہ شرف صرف دو حضرات کو حاصل ہے کہ جنہوں نے عراق میں درس خارج بھی دیا ہے ان میں سے ایک ذات مفتی اعظم کی ہے جس کے شاہد سید جعفر مروج شوستری عادل ہیں۔(مفتی اعظم طاب ثراہ، تالیف: علامہ محمد شاکر امروہوی، ص8)

آپ نے آیۃ اللہ ضیاء الدین عراقی سے کتاب رسائل اور مکاسب پڑھی۔ آیۃ اللہ مرزا حسین خلیل، آیۃ اللہ ملا آخوند محمد کاظم خراسانی اور آیۃ اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی کے درس خارج میں شرکت کی۔ 

مفتی احمد علی صاحب کا حافظہ بہت قوی تھا ، آپ آیۃ اللہ سید محمد کاظم طباطبائی کے درس کے دوران  شرعی مسائل میں بحث کر لیتے تھے، آیۃ اللہ کاظم  صاحب جواب دیتے تھے : آپ بھی مجتہد ہیں اور میں بھی مگر میری رائے یہ ہے اور آپ کی رائے یہ ہے۔ 

مفتی صاحب نے 24 سال کی عمر  میں اجازہ اجتہاد حاصل کرلئے تھے،  اس کے بعد  انہوں نے کربلائے معلیٰ میں کتاب قوانین اور شرح لمعہ کی تدریس کی ۔ اس کے بعد عراق سے ہندوستان واپس آگئے اور درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ 

آپ درس و تدریس کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے، امروہہ میں جہاں موصوف تبلیغی فریضہ انجام دے رہے تھے وہیں  مدرسہ سید المدارس امروہہ میں فریضہ تدریس بھی ادا کر رہے تھے۔ 

مفتی اعظم امروہہ سے لکھنؤ تشریف لائے اور آیۃ اللہ نجم الحسن تقوی کے بعد مدرسہ ناظمیہ کے پرنسپل منتخب کر لیے گئے اور آپ نے اپنی پوری عمر طلاب اور مدرسہ کی خدمت میں گزار دی۔ (مفتی اعظم طاب ثراہ، تالیف: علامہ محمد شاکر امروہوی، ص9)

جس طرح انہیں تدریس پسند تھی اسی طرح شاعری بھی بہت پسند کرتے تھے، موصوف کو ورثہ میں شاعری ملی تھی۔مفتی احمد علی صاحب کا سن  9-10 سال کا تھا جب انہیں شاعری کا شوق ہوا۔ قصیدہ، شعر، سلام، تاریخ عربی، فارسی اور اردو ان کے کشکول میں دیکھے جا سکتے ہیں۔  جس وقت آپ جانسٹھ ضلع مظفر نگر پہنچےتو آپ نے ایک کلام نظم کیا جس کا ایک شعر اس طرح ہے:

چرا راحت نبینم در مکانش - کہ شد عبدللہ خان مھمان نوازم 

مفتی صاحب مستقل کئی سال تک رمضان المبارک  کے مہینہ میں ککرولی ضلع مظفر نگر جاتے تھے اور وہاں مؤمنین کو وعظ و نصیحت فرماتے تھے، وہاں کے لوگ آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ 

آپ نے متعدد علمی آثار  تحریر فرمائے جن میں :  موعظہ فاخرہ، اردو زبان میں لکھی اور رسالہ فی التقلید جس کو عربی زبان میں تحریر فرمایا۔ 

مفتی شوشتری صاحب نے کثیر تعداد میں شاگردوں کی تربیت فرمائی جن میں سے: آیۃ اللہ مفتی سید طیب آغا جزائری ،فاتح ٹیکسلا علامہ محمد بشیر انصاری (مجتہدالعصر)، آیۃ اللہ مفتی جعفر حسین گجرانوالہ، مولانا سید غلام عسکری مؤسس تنظیم المکاتب لکھنؤ، مولانا ڈاکٹر سید مجتبیٰ کامونپوری مجتہد، عمادالعلماء مولانا سید محمد رضی کراچی، مولانا روشن علی خان نجفی مجتہد، شمس الذاکرین مولانا شمس الحسن بجنوری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔(مفتی اعظم طاب ثراہ، تالیف: علامہ محمد شاکر امروہوی، ص12)

مفتی احمد علی صاحب نے  16 ذی الحجہ 1388 ہجری  شہر لکھنؤ میں داعی اجل کو لبیک کہا،  آپ کے تشییع جنازہ میں مؤمنین، علماء اور طلاب دینی نے شرکت کی نیز آپ کو مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ میں سپرد خاک کیا گیا۔ 

آیۃ اللہ علی نقی نقن نے قطعہ تاریخ اسطرح کہا ہے:

یا فقید العلم نریٰ رزءاً جللاً فقد کا   -   قد کنت کبیراً کلھم  صغر   عند کا

قد حقً لک الافتاء فلست اریٰ ند کا    -  و مضیت فارختہ من ذا یفتی بعدکا

اے علم میں لاجواب ہم آپ کے فقدان کو بہت بڑی مصیبت پاتے ہیں۔ آپ ایسے بزرگ تھے کہ سب کے سب آپ کے مقابلہ میں چھوٹے تھے۔ بس فتویٰ دینا تو آپ ہی کا حق تھا کہ جس میں آپ کا کوئی شریک نہیں تھا۔ آپ چلے گئے جس کی میں نے تاریخ کہی کہ اب آپ کے بعد کون فتویٰ دیگا۔ (مفتی اعظم طاب ثراہ، تالیف: علامہ محمد شاکر امروہوی، ص27)

ماخوذ از : نجوم الہدایہ ، ج 5، ص23 ، تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ناشر:دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر-دہلی، 2019ء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .