۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
علامہ سید احمد علی محمد آبادی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید احمد علی ابن عنایت حیدر سنہ 1206ھ مطابق 1792 ءمیں محمد آباد ضلع اعظم گڑھ کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوۓ، ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں حاصل کرکے 13 سال کی عمر میں فیض آباد کا سفر کیا اور وہاں "مولوی سید احمد علی دیو گٹھوی" سے صرف و نحو حاصل کیا،سنہ 1225ھ میں لکھنؤ پہنچے اور وہاں رہ کر مختلف علوم و فنون حاصل کۓ ،فلسفہ و منطق مفتی ظہور اللہ سے فقہ ، اصول ، حدیث اور منقولات غفرانمآب سے پڑھے اور سید العلماء سید حسین بن دلدار علی کے ہمدرس قرار پاۓ ، 7 سال کی قلیل مدت میں ہی اپنی ذہانت وذکاوت اور سعی و کوشش کی بنا پر منزل کمال تک پہنچ گۓ ۔

"فاضل فیض آبادی سید مہدی" فرماتے ہیں کہ موصوف عمر کے اعتبار سے غفران مآب کے سب سے کمسن اور رتبہ کے اعتبار سے سب سےبرتر شاگرد تھے،"مولانا عبد الحیی "نے اپنی کتاب" نزھۃ الخواطر" میں اس طرح نقل کیا کہ موصوف نے غفران مآب کی زندگی کے آخری ایام تک مختلف علوم جیسے حدیث ، فقہ، اصول دین اور اصول فقہ حاصل کۓ اور ان تمام علوم میں دوسرے شاگردوں سے زیادہ مہارت حاصل کی، مفتی محمد عباس شوشتری نے انکے بارے میں "اوراق الذھب "میں اس طرح نقل کیا ہےکہ موصوف علم وعمل میں اپنے استاد غفران مآب کے پیروکار، فاضل کامل، سب سے زیادہ فصیح وبلیغ ، بردبار ،با وقار غرض آپ میں اتنے کمال پاۓ جاتے تھے کہ قلم اور زبان آپ کے فضائل بیان کرنے سے قاصر ہیں ، غفران مآب کی رحلت کے بعد تبلیغ دین کی نشرو اشاعت میں غفران مآب کے فرزند سید العلماء کے شانہ بشانہ رہے لہذا سید العلماء کی نگاہ میں آپ ایک بہترین دوست ، علم فقہ میں سب سے مؤثق، ارادہ میں محکم ، علم کلام میں سب سے زیادہ عالم، معاشرہ میں سب سے زیادہ عادل، اور تقوی میں سب سے زیادہ پرہیزگار قرار پاۓ ۔

موصوف کے اساتذہ میں غفران مآب کے علاوہ مفتی محمد عباس ، سید عبد العلی اور مفتی ظھور اللہ کے اسماء سر فہرست ہیں

علامہ احمد علی لکھنؤ کے ایک زبردست اوربا صلاحیت استاد مانے جاتے تھے،پہلے شاہی مدرسے میں مدرس رہے ،غدر کے بعد لوگ گھر پر آکر مختلف علوم کے درس لیتے تھے ،مشہور ہیکہ آپ کا درس کتاب کا ترجمہ نہیں بلکہ اصل مسئلہ کی تحقیق ہوتی تھی ،اصل مسئلہ کے پہلو بیان کرنے کے بعد اپنی راۓ بھی بیان کرتے تھے، 53 سال کی عمر میں مدرسہ سلطانیہ کے افتتاح کے بعد اسکے دوسرے مدرس اعلیٰ منتخب کۓ گۓ اور اس عہدے پر رہتے ہوۓ 14 سال دین اسلام کی خدمت انجام دی اور طلاب آپ کے وجود مقدس سے فیضیاب ہوتے رہے جو رتبہ آپ کو ملا وہ کسی اور مدرس کو حاصل نہ ہو سکا،

موصوف قرائت میں یگانہ روزگار تھے ، تفسیر وحدیث ،فقہ و اصول اور منطق وفلسفہ میں استادانہ مہارت کے علاوہ عربی ادب پر بھی مکمل تسلط رکھتے تھے ،

آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ، شرح رسالۃ امام رضا ،الرد علٰی الاخباریہ، ،رحلۃ الحجازیۃ سفر برکات آپ کی مشہور تصانیف ہیں اسکے علاوہ بادشاہ اودھ نے حضور اکرم اور آئمہ طاہرین کی سوانح حیات لکھنے کا حکم دیا تو سلطان العلماء نے آپ ہی کو منتخب کیا آپ نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی جسکو تحفۃ المعجزات کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

سنہ 1274 ھ میں آپ نے سفر حج فرمایا اس سفر میں مقامات مقدسہ کی زیارت سے مشرف ہوۓ اور شیخ مرتضی انصاری، میرزا علی نقی طباطبائی حائری اور مرزا لطف اللہ مازندرانی سے ملاقات کی اسی درمیان کسی مسئلہ کے بارے میں مباحثہ ہوا تو موصوف ایسی دلیلیں لاۓ کہ اس نشست کے تمام مجتہدین حیرت میں پڑ گۓ اور آپ کی علمی استعداد کے معترف ہو گۓ ،

آپ عالم ہونے کے ساتھ صاحب کرامت بھی تھے چنانچہ مفتی محمد عباس شوشتری نے آپ سے رونما ہونے والی ایک کرامت کا واقعہ اسطرح نقل کیا ہے کہ غفران مآب کی رحلت کو کچھ ہی زمانہ گذرا تھا میں نے خواب میں دیکھا غفرانمآب عادت کے مطابق گاؤ تکیہ لگاۓ تشریف فرما ہیں اور میں حوض کے پاس کھڑا ہوں میرا نام لیکر آواز دی میں قریب گیا تو فرمایا ، ہمارے فرزند سید العلماء سے کہہ دینا کہ سو دینار جو تمہارے پاس میں نے رکھواۓ تھے ان پر ایک سال گذر گیا ہے زکوٰۃ واجب ہو گئی ہے میں نے کہا بہتر ، جب بیدار ہوا تو سید العلماء کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ خواب بیان کیا تو موصوف نے فرمایا اس رقم کا علم میرے اور میری والدہ کے سوا کسی کو تھا ہی نہیں ،میں نے اس رقم سے زکوٰۃ نکالنا چاہی تھی لیکن بھول گیا تھا ۔

اللہ نے آپ کو 5 نعمتوں سے نوازا جنکے اسماء کچھ اسطرح ہیں : حکیم سید محمد ، مولوی سید علی،سید عبد الحسین،مولوی سید جعفر حسین ، مولوی سید محمد صادق ۔

آخرکار یہ علم و عمل کا ماہتاب سنہ 1295ھ مطابق 1887 ءمیں سرزمین لکھنو پر غروب ہو گیا نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ کربلاء امین الدولۃ لکھنؤ میں زیر قبہ سپرد خاک کر دیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص 69دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020 ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/q7uBbMEGf6s?si=A0xEoyhW

7vs5Yo1b

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .