۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
محقق ہندی مولانا سید محمد حسین

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | محقق ہندی ، سلطان الذاکرین مولانا سید محمد حسین" مجتہد" 13 رجب بروز جمعہ 1276 ھ میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوۓ ،آپ کے والد" مولانا سید حسین زیدی بارہوی" صاحب علم و کمال بزرگ عالم دین تھے، یہی وجہ ہے کہ موصوف نے علمی ماحول میں ہوش سنبھالا ، اپنے والد سمیت قابل و جید معاصر اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے بعد مولانا سید ابراہیم ، مولانا علی محمد اور تاج العلماء سے فقہ و اصول وغیرہ کا درس حاصل کیا ۔

1306 ھ میں زیارت عتبات عالیات کو گۓ تو نجف و کربلا کے دروس خارج میں شرکت کی اور شیوخ درس نے 1308 ھ میں اجازات اجتہاد سے سرفراز کیا جن میں سے: شیخ زین العابدین مازندرانی، حجت الاسلام فضل اللہ اور شیخ محمد حسین مازندرانی وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں، چھٹے سفر عراق میں علماء کی طرف سے آپ کو محقق ہندی کے لقب سے نوازا گیا علماۓ عراق ہمیشہ آپ کے مداح رہے حتیٰ کہ آیت اللہ سید اسماعیل صدر ؒ نے آپ کی تقلید کی اجازت دی تھی ۔

لکھنؤ میں افاضل طلاب اور اکابر علماء اس تعداد میں موجود تھے کہ لوگ نجف و قم کی طرح مستقل درس خارج شروع کرنے کے خواہش مند ہوۓ، چنانچہ جناب شیخ رضا حسین تعلقہ دار نے ایک میٹنگ کرکے فیصلہ کیا آپ سے درخواست کی گئ موصوف آمادہ ہو گۓ اس طرح درس خارج کا آغاز ہوا ، لیکن نجف میں درس خارج کے لۓ جو طویل روایت موجود تھی ، لکھنؤ کی پچاس سالہ زندگی اس کے لۓ پوری طرح سازگار نہ تھی ، یہ درس کچھ عرصہ بعد رک گیا ، اگر لکھنؤ مزید دس بیس برس نۓ حادثات سے دوچار نہ ہوتا تو یقیناً وہاں درس خارج عام ہو جاتا ۔

آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں سے : حکیم سید محمد جواد، حکیم سید مظفر حسین، محدّث خبیر مولانا سید مظفرحسین ، مولانا علی مرزا اورمولانا محمد حسین "مؤلف تذکرہ بے بہا " کے اسماء سر فہرست ہیں۔

مولانا محمد حسین انتہائی مقدس اور زاہد عالم دین تھے، خدا نے ذہن و ذکاوت غیر معمولی عطا کی تھی ، قوت بیان اور قدرت تحریر میں یکتا تھے ، غربا پروری کا یہ عالم کہ سائل کو لڑکی کی شادی کرنے کیلۓ پورے گھر کا اثاثہ دے دیا، مستغنی ایسے کہ "امراء" مجالس عزا کے بعد بڑی سے بڑی رقم پیش کرتے ، آپ اسی وقت اس رقم کو محتاجوں میں بانٹ دیتے یا لیتے ہی نہ تھے ، جب بھی پیسہ ہوتا زیارت کیلۓ روانہ ہو جاتے ،

خطیب ایسے کہ ان سے پہلے اس انداز اور آواز کا خطیب دیکھا نہ گیا ، ہزاروں کا مجمع، اپنے اور بیگانے سب آپ کے فریفتہ تھے برجستہ اوربر محل تقریر ، دلکش اور بھاری بھر کم انداز ، علمی وقار غرض ہر چیز ملحوظ نظر رہتی تھی، آپ نے لکھنؤ ، ممبئی اور بے شمار شہروں میں بڑے بڑے معرکے سر کۓ تھے، شیعہ سنی اجتماعات میں ہمیشہ آپ کو پسند کیا گیا ، لکھنؤ میں اس وقت تین ذاکرین کا بول بالا تھا : قاری محمد علی، کہف العلماء سید ابن حسن اور مولوی محمد عباس ، لیکن محقق ہندی ان سب سے اوپرتھے۔

مولانا مقبول احمد دہلوی کی خطابت کا آغاز تھا ، موصوف جناب مرزا محمد کے یہاں مہمان ہوۓ ، 20 صفر کی مجلس ہوئی تو نواب صاحب نے محقق ہندی سے درخواست کی کہ مولانا دہلی سے آۓہیں اگر پیش خوانی کی اجازت مرحمت فرمائیں تو لوگ متعارف ہو جائیں گے ، محقق ہندی نے اجازت دی ، مقبول احمد کا عالم شباب، نۓ نۓ سنی سے شیعہ ہوۓ تھے، مجلس شروع کی تو مزاح و مطاعن نے مجلس کو زیر وزبر کر دیا ، ان کے بعد محقق ہندی بالاۓ منبر آۓ لیکن چند لمحوں میں ہی گویا مجمع پہلے خطیب کو بھول گیا اور دل کھول کر داد و تحسین سے نوازا رہا تھا اور اس بات پر حیران تھا کہ زور خطابت کس قدر زبر دست ہے ۔

محقق ہندی بڑے منکسر المزاج اور تبلیغ دین میں جفا کش تھے، بر صغیر کے ہر بڑے شہرمیں پہنچے اور لوگوں نے دلچسپی سے سنا ، لکھنؤ اور ممبئی تو آپ کے مفتوحہ شہر تھے گویا بکثرت مجلس پڑھتے اور کبھی عذر نہ کرتے تھے، موصوف حاضر جواب ، وسیع النظر اور ناموس اسلام کے نڈر محافظ تھے ، سر سید احمد خان کی تفسیر سے جوانوں میں نۓ رجحان پیدا ہوۓ تو آپ نے جم کر انکے ذہنوں کو صاف کیا، سنی عیسائی اور دہریوں سے مناظرے کۓ ۔

اتنی مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، آپ کے آثار میں سے : تفسیر برھان در بحث معراج ، حواشی ذخیرۃ المعاد (فقہ )، تحقیق جدید (اصول فقہ) ، کتاب الصلٰوۃ توضیح المسائل ، القول المفید فی مسائل الاجتھاد و التقلید(عربی طبع)، رسالۃ الجمعۃ (عربی)، رسالۃ اصالۃ الطہارۃ (عربی) آفتاب ہدایت ، ترجمہ نہج البلاغہ اردو اور ترجمہ صحیفہ کاملہ وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔

اللہ نے آپ کو چھ نعمتوں سے نوازا جنکے اسماء کچھ اس طرح ہیں : ظفر حسن ، نظر حسن ، محمد عابد، محمد باقر، محمد صادق اور سکندر حسین

.یہ علم و ہنر کا آفتاب 28 ربیع الاول 1337ھ بروز پنجشنبہ اپنے آبائی مکان محلہ دال منڈی سرزمین لکھنؤ پر غروب ہوگیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملا ۔نماز جنازہ کے بعد ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ شیر جنگ باغ میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص 215دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2021

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/F3L93DkBbjM?si=QXZNXHYKwb8jkRAU

تبصرہ ارسال

You are replying to: .