حوزہ نیوز ایجنسی | خاندان اجتہاد کے چشم و چراغ مولانا سید کلب حسین نقوی عرف کبن نصیرآبادی 13 فروری سنہ 1894ء میں خاندان اجتہاد میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوئے۔ آپ کا تاریخی نام "علی اختر" تھا۔ آپ کے والد "قدوۃ العلماء مولانا سید آقا حسن" علماء لکھنؤ کے درمیان بڑی شہرت کے مالک تھے۔ آپ کے نانا "مولانا میر آغا "بھی لکھنؤ کے بڑے فقہا میں شمار ہوتے تھے۔
عمدۃ العلماء نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر کے علمی ماحول میں اپنے والد اور دیگر افراد سے حاصل کی۔آپ کے والدآقا حسن نے ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ سلطان المدارس میں داخل کرا دیا جہاں آپ کا شمار مدرسے کے خوش اخلاق، شاعر اور ذہین طلباء میں ہوتا تھا۔آپ نے مدرسے کے اساتذہ سے کسب فیض کرکے صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔
مولانا کلب حسین نے مدرسہ سے فراغت کے بعد عراق کا رخ کیا ، نجف اشرف اور کربلائے معلیٰ کے اکابر علماء سے تین سال کسب فیض کرنے کے بعد اپنے وطن لکھنؤ واپس آگئے۔ آپ کے سلطان المدارس کے اساتذہ میں مولانا سید محمد رضا فلسفی، آیت اللہ سید ہادی، باقرالعلوم آیت اللہ سید محمد باقر رضوی وغیرہ اور گھر پر اپنے والد قدوۃ العلماء آقا حسن ، ظھیر الملت آیت اللہ ظھور حسین، عمدۃ العلماء مولانا سید کاظم، اشرف الحکماء حکیم سید علی وغیرہ سے تعلیم حاصل کی ۔
آپ کے خاندان نے جہاں دوسری خدمات انجام دیں وہیں شعر و ادب یعنی اردو زبان کی بھی بڑی خدمت کی ہے۔آپ کے خانوادے کے ممتازشعراء و ادباء میں ماہر، خورشید، حسین، فاخر، جاوید، ذاخر، آشفتہ، تمنا، ہدف، شاعر، اختر وغیرہ کے نام لۓ جا سکتے ہیں ۔ عمدۃ العلماء کے بچپن کے ساتھیوں میں لسان الشعراء مولانا اولاد حسین شاعر اور ابوالمعارف مولوی رازی اجتہادی خلف بحرالعلوم جیسے ادباء پائے جاتے ہیں۔ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ آپ کو بچپن ہی سے شاعری کا شوق تھا اور اپنے خالو "ذاخر" سے اصلاح لیتے تھے آپ نے قصیدے، غزلیں اور نوحے نظم فرمائے۔
آپ کے کلام کا نمونہ حاضر خدمت ہے:
اردو شعر
کوئی پوچھے ساکنان قبر سے - درد دل اب بھی ہے یا آرام ہے
فارسی قطعہ
شادم کہ من گذشتم و ذکرم گذاشتم - قائم ازیں حسینیہ نام و نشان من
کلب حسین بودم و نازم بخدمتش - غافل نہ شد ز ذکر حسینم زبان من
آپ اپنے والد کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے۔ خدا نے آپ کو قوت بیان اور ملکہ خطابت سے نوازا تھا اس لئے آپ نے منبر کو زینت بخشی اور دن بدن ترقی کرتے گئے۔ اس وقت شیعہ خطابت کے افق پر شمس العلماء خطیب اعظم مولانا سبط حسن، مولانا محمد رضا فلسفی اور مولانا محمد حسین محقق ہندی جیسے اکابر ضو فشاں تھے۔ مولانا کلب حسین نے مطالعہ اور محنت سے ان بزرگوں کی موجودگی میں شہرت حاصل کی۔
سنہ 1348 ہجری میں قدوۃ العلماء مولانا آقا حسن کی رحلت کے بعدآپ کے کاندھوں پر بے شمار ذمہ داریاں آ گئیں، مسجدآصف الدولہ کی امامت جمعہ، اوقاف کےانتظامات، والد کےمقلدین کا رجوع، قومی معاملات کی دیکھ بھال، سلسلہ اشاعت کا باقی رکھنا، لوگوں سے ملاقاتیں، لوگوں کے خطوط کا جواب، اور ذاکری۔ آپ نے تمام امور یوں سنبھالے کہ لوگوں کو ان کے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ بڑی سے بڑی مشکل میں لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملنا۔ بڑے سے بڑے دشمن کو گلے لگانا، غریبوں کی خدمت کرنا، سماج اور معاشرے کی فلاح اور بہبودی میں شب و روز محنت کرنا، ہر اچھے کام میں تعاون، تمام لوگوں سے محبت اور تمام لوگوں سے روابط رکھنا ان کے کمالات کی دلیل ہے۔
مرجعیت میں آیت اللہ نجم الملت اور ناصرالملت کے بعد آیت اللہ کلب حسین منفرد شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ کی سب سے بڑی مصروفیت مجالس تھیں ، برصغیر کے گوشے گوشے میں مجالس خطاب فرمائیں۔ خطابت میں آپ کا اسلوب بہت دل کش، لہجہ نرم، انداز بیاں سادہ، زبان شریں و فصیح۔ برصغیر کے راجہ مہاراجہ، امیر غریب سبھی انکو بلاتے اور ہر سننے والا غیر معمولی حد تک پسند کرتا تھا۔
افریقہ، عراق، ایران اور دیگر مقامات پر آپ کی عزت اور تمام شیعہ ان کو عقیدت کا مرکز مانتے تھے۔ آپ علم، ذہانت، عمل، تقدس، بے غرضی، خلوص، ایثار، حسن اخلاق و حسن کردار کی حسین مثال تھے۔ آپ نے قوم کے فکری، اخلاقی، علمی اور اقتصادی معیار کو بلند کرنے کے لئے رسالے نکالے جن میں الناطق، بلاغ اور سحاب کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ بیت المال ادارہ اقتصادیات اور دیگر اداروں کے لئے بنیادی کام کیے۔ جامعہ ناظمیہ، یتیم خانہ، سلطان المدارس، شیعہ کانفرنس اور سرفراز اخبار جیسے اداروں میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
مولانا کلب حسین محنتی انسان تھے وہ سینکڑوں مسئلوں پر فتوے اور مضامین لکھتے تھے، تالیفات میں آپ کی کتاب "مجالس الشیعہ" کا نام لیا جا سکتاہے۔
اللہ نے آپ کو پانچ فرزند عطافرمائے جن کے نام کچھ اسطرح ہیں: مولانا کلب عابد نقوی، مولانا ڈاکٹر کلب صادق ، سید کلب ہادی، سید کلب باقر اور سید کلب محسن نقوی۔
سنہ 1948 عیسوی میں آپ کے فرزند اکبر مولانا سید کلب عابد نجف اشرف سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لکھنؤ تشریف لائے تو آپ ان کو اپنا معاون بناتے گئے اللہ نے فرزند بھی سعید و صالح با صلاحیت و با وقار عطا کیا جس کی مثال کم ملتی ہے۔ آہستہ آہستہ اپنی ذمہ داریاں اپنے فرزند کو دیتے رہے اور جب تک چل پھر سکےخدمت کرتے رہے، صاحب فراش ہوئے تب بھی کچھ نہیں تو خطوط کے جواب ہی لکھتے رہے۔
ایک دن فینس میں بیٹھ کرمولانا ڈاکٹر کلب صادق کی مجلس سننے گئے اور کہا خدا کا شکر ہے منبر پر میری آواز اور محراب میں میری تصویر آگئی۔ تقریباً بہتر برس کی جدّو جہد نے نے کمزور کردیا تھا، بیماری میں مبتلا ہوگئے، ہر ممکن علاج کیا مگر افاقہ نہ ہوسکا ۔
آخرکار یہ علم و عمل کا چمکتا گوہر 6 اکتوبر 1963 عیسوی میں خاموش ہوگیا۔ سینکڑوں یتیم اور بیوہ لاوارث ہوگئے قوم کا قوی مرکز ختم ہوگیا، شام غریباں کا پہلا ذاکر رخصت ہوگیا۔ آپ کی رحلت کی خبر بجلی کی مانند پھیل گئی۔ چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر امنڈ پڑا۔ تمام عالم تشیع میں کہرام برپا ہو گیا۔ جنازہ غسل و کفن کے لئے دریائے گومتی پر لے جایا گیا۔
آپ کی تشیع جنازہ میں ہندو مسلم شیعہ سنی اور دیگر مسالک کے لوگوں نے شرکت کی۔ جنازے کے ساتھ بے شمار ماتمی دستے ماتم کرتے ہوئے جنازہ میں شریک ہوۓاور مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ حسینیہ غفرانمآب میں زیر منبر سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص 1451دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020
ویڈیو دیکھیں: