حوزہ نیوز ایجنسی | قدوۃ العارفین مولانا سید علی ابن سید حیدر علی سن 1800 عیسوی میں سرزمین بھیک پور، صوبہ بہار پر پیدا ہوئے۔ موصوف سرزمین بھیک پور کے پہلے عالم دین تھےآپ کے علم و فیض سے متاثر ہوکر لوگوں کے دلوں میں علوم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو ا اسکے بعد سرزمین بھیک پور علماء دین کے وجود سے پہچانی جانے لگی جسمیں آپ کا نام سرفہرست ہے مولانا نہ صرف بھیکپور بلکہ صوبہ بہار کے پہلے شیعہ مجتہد تھےموصوف کا اصلی نام سید پیر علی تھا، جسے سید العلماء علیین مکان کے ناپسند ہونےاور ان کی فرمائش کے مطابق " سید علی "کر دیا۔
آپ نے پندرہ سال کی عمر میں تحصیل علم کی غرض سے چھپرہ کا رخ کیا اور وہاں تقریباً دس سال جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔ پھر اس کے بعد لکھنؤ کے لیے پیدل روانہ ہو ئے اورایک ماہ کا پاپیادہ سفر طےکرکے اودھ کی سرزمین پر وارد ہوئے اور لکھنؤ کی ایک مسجد میں قیام کیا ۔ تین دن فاقہ کشی کی لیکن غیرت کے باعث آپ نے کسی سے اپنے حال کا ذکر نہ کیا۔ آخرکار بارگاہِ الہٰی میں دعا کی کہ "بارِ الٰہ! اگر میرا رزق دنیا میں نہیں رہا تو موت کی سختی مجھ پر آسان کر دے، ورنہ روزی کےملنے کی کوئی سبیل پیدا کر۔" دعا ختم ہوتے ہی کسی نے مسجد کے دروازے پر آپ کا نام لے کر پکارا کہ "چلیے، لکھنؤ کےفلاں رئیس کے یہاں طلاب کی دعوت ہے۔" آپ وہاں پہنچے۔ اس رئیس نے اپنی نذر کے مطابق ہر طالب علم کو پانچ روپے اور کھانے سے بھرا ہوا ایک خوان دیا جو کئی دن کے لیے کافی رہا۔ وہ کھانا اور روپیہ جتنے دن چلا، اس عرصے میں آپ کے لیے وظیفے کا انتظام ہو گیا اور آپ تحصیل علم میں مشغول ہوگئے۔ تھوڑی ہی مدت میں آپ سید العلماء سید حسین علین مکان کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔
سید العلماء نے آپ کو کسی رئیس زادہ کی تعلیم کے لیے پندرہ روپے ماہوار پر مقرر کر دیا تاکہ بغیر کسی فکر کےتحصیل علم کی طرف توجہ رکھ سکیں۔ آپ کےقیام و طعام کاا نتظام بھی رئیس کےیہاں تھا۔ سید العلماء علیین مکان نے اپنے صاحبزادوں سید محمد تقی (ممتاز العلماء) اور سید علی نقی (زبدۃ العلماء) کی تعلیم کے لیے آپ ہی کو مامور فرمایا۔
سن 1352ہجری میں قدوۃ العارفین نے بارہ سال علیین مکان سے کسب فیض کرنے کے بعد اپنےوطن واپس جانے کا قصد کیا۔ آپ کا وطن میں پرجوش استقبال ہوا، موصوف کے مختصر قیام کے دوران آپ کے علم و فضل اور کمالات نفسانی سے لوگ اس قدر متاثر ہوئے کہ بہت سے لوگوں کے دلوں میں علم دین حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوگیا۔جب آپ دوبارہ لکھنؤ آنے لگے تو بہت سےافراد تحصیل علم کی غرض سے آپ کے ساتھ روانہ ہوئے، اس طرح بہار کے لوگوں نےتحصیل علم کی غرض سے لکھنؤ آنا جانا شروع کیا۔مولانا سید علی نے تحصیل علم میں اپنی نصف عمر سے زیادہ گزری۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد موصوف نے وطن میں قیام کیا اور وہاں نماز جمعہ و جماعت قائم کی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں مشغول ہو گئے۔ آپ کی تبلیغ کا یہ اثرہوا کہ جن لوگوں نے کبھی قبلے کی طرف منہ نہیں کیا تھا وہ بھی پانچوں وقت کی نماز کے پابند ہو گئے۔
آپ نے تبلیغ دین کی غرض سے پورنیہ کا سفر کیا اور وہاں سے وطن واپسی میں چھپرہ پہنچے تو وہاں کے رؤسا نے چھپرہ میں قیام کرنے کی درخواست کی۔ آپ نے ان کی درخواست کو قبول کیااور وہاں چند سال دینی خدمات میں مشغول رہے۔ سنہ 1358ہجری میں حالات بدلے اور آپ چھپرہ چھوڑ کر مظفر پور تشریف لے آئے۔ مظفرپور میں نواب سید کاظم علی خاں (عرف چھوٹے میرن صاحب) کے یہاں ان کے بچوں کی تعلیم کے لیے قلیل ماہانہ تنخواہ پر مقرر ہوئے۔وہاں آپ نے تقریباً دو سال اس گمنامی اور بے قدری کے عالم میں گذرے۔
اسی دوران لکھنؤ سے فاضل نبیل مولانا سید علی لکھنوی کسی سلسلے میں مظفر پور تشریف لائے توانہوں نے نواب سید محمد تقی خان رئیس کمرہ مظفر پور کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا سید علی بھیک پوری کو اپنی تعمیرکردہ نو مسجد میں اقامہ جمعہ و جماعت کی دعوت دیں۔ جب اہل مظفر پور نے آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھا تو آپ کے معتقد بلکہ گرویدہ ہو گئے۔
آپ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی۔ کھانا بدمزہ کھاتے، لباس موٹا پہنتے، اکثر تخت یا بورے پر بغیر فرش کے سوتے۔ سفر کے دوران ریاضت نفس کی خاطرسواری ساتھ ہوتے ہوئے بھی کوسوں پیدل چلتے۔ کسی کا نذرانہ قبول نہ کرتے تھے۔
آپ کو چھپرہ یا مظفر پور میں کبھی خوشحالی نصیب نہیں ہوئی مگر آپ نے اپنے اخراجات کو اس طرح سمیٹ لیا تھا کہ اسی قلیل آمدنی میں گھر کےاخراجات پورے کرتے اور اس قلیل رقم سے ایک حصہ داد و دہش کے لیے بھی مخصوص رکھتے۔ آپ غریبوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی فرماتے ۔ بہت سی غریب لڑکیوں کی شادیوں کے اخراجات برداشت کیے۔ وطن میں اپنی جیب خاص سےایک کنواں کھدوایااور ایک مسجد بنوائی جسکی بعدمیں صاحب لواعج الاحزان کے برادر نسبتی حاجی دلدار حسین نے تعمیر جدید اور توسیع کی ۔
قدوۃ العارفین متقی اور پرہیزگار عالم تھے اللہ نے آپ کی زبان میں تاثیررکھی تھی جب آپ چھپرہ تشریف لائے، تو وہاں زبردست خشک سالی تھی۔ تمام مذہب و ملت کے لوگ اپنے اپنے طور پر دعائیں کر کے تھک چکے تھے۔ آپ نے نماز استسقاء پڑھائی۔ ابھی نماز کے اعمال ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اسی طرح ایک مرتبہ مظفر پور میں سب لوگ پریشان تھے۔ عید الاضحیٰ کی نماز کے لیے سب مومنین کو باہر لے کر نکلےاور سربرہنہ ہو کر بارش کے لیے دعا کی۔ ابھی دعا ختم نہیں ہوئی تھی آسمان پر بادل چھائے اور برسنے لگے۔ ایک مرتبہ آپ اپنی سسرال بنگرہ میں مقیم تھے۔ پڑوس میں گانے شروع ہو گئے۔ مولانا ان لوگوں کو روکنے پر قادر نہ تھے، اس لیے نصف شب کے قریب وہاں سے پا پیادہ مظفر پور کے لیے روانہ ہو گئے۔
تقریباً چالیس سال کی عمر میں سن 1255ہجری میں اپنے والدین کی پسند سے کٹو کھر ضلع سارن میں شادی کی۔ ان کے بطن سے کئی بچے ہوئے، مگرسب کے سب ایام رضاعت میں فوت ہو گئے، جس سے آپ بہت رنجیدہ رہتے ۔ آخر احباب کے اصرار پر بنگرہ ضلع مظفر پور میں دوسری شادی کی، جس سے دو بیٹے ہوئے جو آگے چل کر مولانا سید محمد مہدی (مصنف لوائح الاحزان) اور مولانا حکیم ڈاکٹر سید محمد جواد کے نام سے پہچانے گئے۔
آخرکار یہ علم و عمل کا ماہتاب 70 سال کی عمر میں 12/جون 1868 عیسوی مظفر پور میں فالج کے اثرسے غروب ہوگیا، دوسرے روز مولانا مرزا محمد ہادی لکھنوی، مولف خلاصۃ المصائب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اور مؤمنین کی ہزار آہ و بکاہ کے ہمراہ مظفر پور کی چھوٹی کربلا میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
آپ کا تبصرہ