جمعرات 24 اپریل 2025 - 18:49
آیت اللہ باقر موسوی الصفوی کی رحلت پر تنظیم المکاتب کشمیر کا تعزیتی بیان

حوزہ/وادی کشمیر کے ایک فقید المثال عالم دین علامہ آغا سید باقر الموسوی الصفوی النجفی اعلی اللہ مقامہ کی مجلس ترحیم پر معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر نے اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرحوم کی وفات سے امت مسلمہ علوم دینیہ کے ایک عظیم ماہر اور روحانی شخصیت سے محروم ہوچکی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تنظیم المکاتب کشمیر کے تعزیتی پیغام کا متن مندرجہ ذیل ہے۔

سلامٌ علیکم!

أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیم

اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعالَمینَ۔اَلصَّلوٰۃُ ُوَالسَّلَامُ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَاٰلِہٖ الطَاہِرِیْنْ

اَمَا بَعْد قَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ فِیْ کِتَابِہٖ المُبِیْنْ

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوَكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

پروردگار عالم کا ارشاد ہے کہ

’’ہر شخص ایک نہ ایک دن موت کا مزہ چکھنے والا ہے اور ہم تمہیں مصیبت و راحت میں امتحان کی غرض سے آزماتے ہیں اور (آخر کار) ہماری ہی طرف لوٹا لئے جاؤ گے۔‘‘

کاغذِ دفتی اور مکڑی کے گھر جیسی یہ دنیائے فانی مصیبتوں کا گھر ہے۔بنی آدم کی دنیاوی زندگی کے لمحات مصائب کا سامنا کرتے کرتے ہی گزر جاتے ہیں کیونکہ مصائب خدائی امتحانات ہوا کرتے ہیں۔کسی گھرانے میں کسی فرد کاموت کی صورت میں جُدا ہونا ایک مصیبت ہے بلکہ یہ داغ مفارقت تمام دنیاوی مصائب سے عظیم ترین مصیبت ہے۔اس داغ فرقت سے عیاں ہوتا رہا ہے کہ ہر کسی اجتماع‘ہر کسی دوستی‘ہر کسی رشتہ کا انجام آخر کار جُدائی ہی ہے۔رنج و غم کے اس عالم میں صبر و شکیبائی سے کام لینے کے سوا کوئی اور چیز قرین ِ نظر نہیں آتی ہے۔

وَ لَنَبۡلُوَنَّکُمۡ حَتّٰی نَعۡلَمَ الۡمُجٰہِدِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ الصّٰبِرِیۡنَ ۙ (سورہ محمد آیت ۳۱)

مصیبتیں خدائی امتحان میں صبر کرنے والے اور مجاہدین کے چہرے روشن ہونے کا معیار ہے۔صبر انبیاء ؑ کے صفات میں سے ہے۔صبر جنت کی کنجی ہے اسلئے صبر کا ہدف اور مقصد بھی رضایت الٰہی ہونا چاہئے۔

چند روز پہلے نہایت ہی گہرے دُکھ اور افسوس کے ساتھ جب یہ خبرپھیل گئی کہ وادی کشمیر کے ایک جلیل القدر‘فقید المثال عالم باعمل‘پیکر زہد و تقویٰ‘جید‘متبحراور مختلف علوم اسلامی پر وسیع نظر رکھنے والے عظیم عالم دین علامہ سید باقر الموسوی الصفوی النجفی اعلی اللہ مقامہ انتقال فرماگئے۔مومنین پر رنج و غم کی کیفیت طاری ہوئی۔دل انتہائی رنجیدہ و غمگین ہوئے۔مرحوم آغا صاحب نے اپنی تمام تر زندگی دین اسلام کی خدمت اور تعلیم و تدریس میں گزار دی۔مرحوم نہ صرف علمی تبحر میں کمال درجہ کے حامل تھے بلکہ اُن کی زبان و بیان میں بھی حد درجہ کی ایک غیر معمولی فصاحت و بلاغت موجود تھی۔

مرحوم کی وفات سے امت مسلمہ علوم دینیہ کے ایک عظیم ماہر اور روحانی شخصیت سے محروم ہوچکی ہے۔اُن کا انتقال علمی دنیا کا ایک ایسا خلا ہے جو مدتوں پُر نہ ہوسکے گا۔

مرحوم ایک گراں بہا علمی میراث چھوڑ کے گئے ہیں۔یہ میراث اُن کی بیش قیمت گونا گوں تصانیف و تالیفات کی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے جن سے ہمیں بھر پور استفادہ کرنا چاہئے۔شاید مرحوم کی کچھ کتابیں ابھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔اگر ایسا کچھ ہے تو تنظیم المکاتب کشمیر مرحوم کے فرزند ارجمند جو خود بھی ایک باصلاحیت اسلامی اسکالر ہیں کو یہ کتب چھاپنے میں بھر پور تعاون دے سکتا ہے۔

اللہ مرحوم علامہ آغا صاحب کے درجات بلند کرے۔غم جانگداز کے اس موقع پر معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کے اراکین‘مدرسین‘منتظمین مکاتب امامیہ و دیگر بہی خواہاں تحریک دینداری مرحوم کے فرزند ارجمند عالی جناب آغا سید احمد الموسوی الصفوی صاحب و دیگر لواحقین‘مرحوم کے تلامذہ اورتمام اہل علم کی خدمت میں دلی تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہیں۔ہماری ساری ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں۔بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم علامہ آغا صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے‘اُن کی علمی و دینی خدمات کو شرف قبولیت بخشے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

چنانچہ یہ مجلس تعزیت ایک عالم دین کی مجلس ترحیم ہے اسلئے دامن وقت کی تنگی کو بالکل مدنظر رکھ کر کچھ باتیں علماء دین کی اہمیت و ضرورت کے بارے میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ (سورہ توبہ آیت ۱۲۲)

(ترجمہ: اس میں سے ہر گروہ کی ایک جماعت اپنے گھروں سے کیوں نہیں نکلتی تاکہ علم دین حاصل کریں اور جب اپنی قوم کی طرف پلٹ کے آئے تو انکو عذاب آخرت سے ڈرائے تاکہ یہ لوگ ڈریں)

اُستاد محسن قرأتی مدظلہ العالی اس آیہ کریمہ کےذیل میں فرماتے ہیں کہ ضروری ہے کہ ہر علاقہ سے کچھ لوگ اپنی معلومات کے حصول کے لئے علمی مراکز کی طرف جائیں تاکہ ہر علاقہ میں ایک عالم دین موجود رہے اور اُن کی دینی ضروریات کو پورا کرے۔اس سے معلوم ہوا کہ ہر بستی میں ایک عالم دین کا ہونا بہت ضروری ہے۔کیونکہ باعمل علماء دین کی صحبت سے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ذکر خدا کی توفیق ہوجاتی ہے‘ انکی ہمراہی اختیار کرنے سے دل رزائل سے پاک ہوجاتا ہے۔تصور الٰہی حاصل ہوجاتا ہے‘گناہوں سے پاک ہونے کا انمول موقع ہاتھ آتا ہے اور عملی موعظے سے استفادہ ہوتا ہے جواب تک لفظی موعظوں سے زیادہ موثر ثابت ہے۔

علماء کرام ایک آئینہ کے مانند ہیں۔آئینہ صاف اور پاک جذبہ سے عیب کو بیان کرتا ہے۔

آئینہ عیب دکھانے کے ساتھ ساتھ خوبصورتی اور مثبت نکات بھی دکھاتا ہے۔آئینہ عیب کو آمنے سامنے بیان کرتا ہے نہ کہ پیٹھ پیچھے۔

اگرآئینہ نے میرے عیب کو بتایا ہے تو مجھے اپنی اصلاح کرنی چاہئے نہ کہ میں آئینہ کو توڑدوں۔

حکایات میں ہے کہ ایک خوفناک حبشی کو جنگل میں ایک آئینہ پڑا ہوا ملا۔اُس نے اٹھایا تو اپنی خوفناک شکل نظر آئی۔چیخ مارکر آئینہ کو پھینک دیا اور بولا کہ تیری اتنی خراب شکل ہے تب ہی تجھے کوئی جنگل میں پھینک گیا ہے۔اسطرح بہت سے لوگ جو بلا دلیل شرعی علماء کرام کو بُرا بھلا کہتے ہیں وہ اصل میں اُن کے باطن کی اصلی شکل ہوتی ہے جو انکو دین کے خادموں میں نظر آتی ہے۔

ترکِ گناہان کے چالیس طریقے سید عابد حسین زیدی صاحب کی ایک تصنیف ہے اسکا ایک اقتباس پیش خدمت ہے: ’’بعض لوگ چند اصطلاحات و کتابیں پڑھ کر محقق بننے کا شوق پورا کرتے ہیں اور اپنے تئیں علماء بلکہ مجتہدین و مراجع تک کی اصلاح شروع کر دیتے ہیں۔ان کی مثال کچھ ایسی ہوتی ہے کہ جیسے ایک چوہا جارہا تھا اور اسکے قریب ہی ایک اونٹ بھی جارہا تھا‘جس کے گلے کی رسی زمین پر لٹک رہی تھی۔چوہے نے وہ رسی اپنے دانتوں میں دبالی اور اُس کے آگے آگے چلنے لگا۔چوہے نے سمجھا کہ اونٹ تو آج میرا مرید بن گیا ہے‘کیسا میرے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔اب میری طرف شہرت ہوجائے گی کہ اونٹ جیسا دیوہیکل آج میرا غلام بنا ہوا ہے۔اونٹ بھی یہ دیکھ رہا تھا کہ میاں چوہے کب تک میری رہنمائی فرماتے ہیں؟ جب آگے دریا آیا تو اب چوہا وہیں رُک گیا۔اونٹ نے کہا کہ شیخ صاحب ! جب آپ نے خشکی میں میری رہنمائی فرمائی ہے تو پانی میں بھی چلئے‘آپ رُک کیوں گئے؟ چلئے میں چلتا ہوں ‘میرے فقط گھٹنوں تک ہی تو پانی ہے تو چوہے نے کہا کہ جہاں تک تمہارے گھٹنے کا پانی ہے وہاں کے بہاؤ میں تو میری پشتیں ڈوب جائیں گی۔‘‘

مولانا روم ؒ فرماتے ہیں کہ جو چھوٹے اور نااہل ‘علماء و اکابرین کے مصلح اور رہبر بننا چاہتے ہیں۔اُن کا حال اسی چوہے کی طرح ہوتا ہے جو اونٹ کی رہبری کر رہا تھا، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم ہر وقت باعمل علماء دین سے وابستہ رہیں‘ ان کو وہ احترام دیں جس کے وہ حقدار ہیں اور اُن سے دینی معلومات حاصل کرتے رہیں تب ہی حرام اعمال سے بچنے کا ملکہ پیدا ہوسکے گا۔اسطرح ہم اپنے حاصل کردہ معلومات پر عمل کریں گے اور اللہ ہمارے مجہولات کو بھی معلوم بنائے گا۔

شریکِ غم؛ حسین حامد نگراں سیکریٹری معاون کمیٹی تنظیم المکاتب کشمیر

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha