۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ سید راحت حسین بھیکپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی علامہ سید راحت حسین رضوی بھیک پوری یکم محرم الحرام سنہ 1306 ہجری میں اپنے وطن علی نگر (بھیک پور) ضلع سارن (سیوان) صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے پدر بزرگوار مولانا سید محمد ابراہیم بڑی خوبیوں کے بزرگ، با عمل اوراعلیٰ درجہ کے عالم تھے۔

علامہ ابھی تین سال ہی کے تھے کہ سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ راحت حسین صاحب کی تعلیم و تربیت ان کے حقیقی خالو علامہ محمد مہدی (صاحب لواعج الاحزان)، ان کے ماموں عمدۃ العلماء مولانا حکیم سید واجد علی اور مولانا حاجی دلدارحسین نے سنبھالی۔ صاحب لواعج الاحزان نے انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور اپنی مستقل قیام گاہ (محلہ کمرہ- مظفر پور) لے گئے اور وہاں مدرسۂ ایمانیہ میں داخل کرا دیااور موصوف وہاں تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہوگئے۔

پھر آپ نے پٹنہ کا رخ کیا اور سلطان المفسرین مولانا حافظ سید فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہ کی سرپرستی میں تحصیل علوم میں مشغول ہوگئے، چند برس تعلیم حاصل کرنے کے بعداپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھنؤ اور رامپور کا سفر طے کیا ۔رامپور میں خطیب ملت مترجم قرآن مولانا مقبول احمد رحمۃ اللہ علیہ کی سرپرستی میں کسب فیض کیا اور جب تک لکھنؤ میں قیام رہا ناصرالملت علامہ ناصر حسین موسوی(مجتہد) کے کتاب خانہ ناصریہ میں رہے۔ناصرالملت، مولانا کی ذہانت اور ذکاوت کو دیکھ کر ان سےاپنے حقیقی فرزند کی مانند لگاؤ رکھتے تھے۔ آپ نے جن اساتذہ سے کسب فیض کیا ان کے اسمائے گرامی کچھ اس طرح ہیں: مولانا ظہورحسین، ناصرالملت علامہ ناصرحسین، مفتی محمدعلی، مولانا عابد حسین وغیرہ۔

موصوف نہایت مہربان عالم اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ علم و دانش سے بے حد لگاؤ ان کی زندگی کا ہم حصہ تھا یہی سبب ہے کہ وہ ہمیشہ تحقیق اور تبلیغ دین میں سرگرم عمل رہتے تھے۔

علامہ موصوف میں اخلاقی تربیت کے ساتھ قومی خدمت کا جذبہ بھی بہت زیادہ تھا جس کی وجہ سے ہر طبقہ اور ہر خانوادہ میں ہردلعزیز اورمقبول تھے۔ اہل ہنود میں آنریبل رائے بہادر، بابوگنگا پرشاد ورما سے بہت اچھے روبط تھے۔ علماء اہلسنت میں علامہ شبلی نعمانی صاحب اور حضرت خواجہ نظامی سے گہرے تعلقات تھے جو آپ کی علم دوستی اور کمال پروری کی دلیل ہے۔

علامہ کوگیارہ سال کی عمر ہی سے اخبار بینی کا شوق ہوگیا تھا، موصوف فرماتے تھے : ہمارے خالو علامہ محمد مہدی کی خدمت میں اصلاح پرچہ اور پیشہ اخبار آیا کرتا تھا اور میں اسے کبھی کبھی دیکھ لیا کرتا تھا، رفتہ رفتہ شوق اور دلچسپی اس حد تک ہوگئی کہ میں خودبھی منگانے لگا، جب گھر والوں کو خبر ہوئی تو سب نے ایک زبان ہوکر کہا: یہ اخبار بینی کے ایام نہیں ہیں بلکہ تحصیل علوم کے ایام ہیں۔ میں پھر عزیز و اقارب سے چھپ کر صحرامیں اور درختوں پر چڑھ کر اخبارات پڑھنے لگا۔

اخبار بینی کےفطری شوق اور دلی رجحان نے مضمون نگاری کا شوق پیدا کر دیا اور اس زمانہ کے مشہور و معروف اخبارات میں مضامین لکھنے لگے اور ایک دن اسکالر کی حیثیت سے قلمی دنیا پہ چھا گئے۔ آپ مضمون نگاری میں اتنے اونچے مقام کے حامل ہوچکے تھے کہ تمام اخبار آپ سے مضمون نویسی کی درخواست کرتے تھے۔

تمام مذاہب کے افراد پیر مانتے اور جب کبھی کسی کو کوئی مشکل پیش آتی تو آپ سے دعا کے لئے کہتے ، آپ کی زبان میں اللہ نے وہ تاثیر رکھی تھی کہ جب دعا کرتے تو اللہ ان کی دعا کو قبول کرلیتا تھا۔

آپ کو کسی نے خبر دی کہ سرکار ہنرہائنس نواب صاحب کھمبات آپ کے عشرہ کی خاص مجلس میں شرکت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور کچھ دیر تک بیان جاری رکھنے کی فرمائش کی گئی ہے مگر نواب صاحب ریاست کے کاموں میں الجھے اور تاخیر ہوگئی جب امام بارگاہ میں پہنچے تو مجلس شروع ہوئی مگر صرف پانچ منٹ آپ نے بیان فرمایا اور کہا :"افسوس! اب مغرب کا وقت قریب ہے اور کربلا والوں نے جماعت کا سبق دیا ہے کہ عاشقان امام کو کبھی بھلانا نہیں چاہیے، میں فرمائش کے باوجود بھی چند منٹ سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا" یہ کہہ کر آپ نے ایسی مجلس پڑھی کہ در و دیوار سے ہائے ہائے کی صدائیں آرہی تھیں، مجلس کے بعد علامہ اول وقت محراب عبادت میں تھے۔ آپ کو جب بھی وقت ملتا تو تسبیح خدا میں مصروف ہوجاتے تھے۔

علامہ کبھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے، ہمیشہ بڑے چھوٹے کا احترام کرتے ،غریبوں کی عیادت اور فقراء کی خدمت وغیرہ آپ کی طبعیت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ آپ ہر حال میں صابر و شاکر تھے حتی اولاد کے داغ مفارقت کے وقت بھی صحیفہ سجادیہ کی دعائے شکر پڑھ رہے تھے۔

30/مارچ 1912 عیسوی میں روضۂ امام رضا علیہ السلام(مشہد مقدس ) کاقیامت خیز واقعہ جس میں روسیوں کے ہاتھوں گولہ باری ہوئی اور روضہ اقدس کے بیش بہا خزانےلوٹ لئے گئے، جب یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو تمام اسلامی دنیا میں ہلچل مچ گئی اور ہندوستان میں بے شمار جلسوں میں روسیوں سے نفرت کا اظہارکیا گیا۔ آپ پر اس واقعہ کا گہرا اثر ہوا ، کئی روز تک کھانا نہ کھایا، لکھنؤ سے اپنے وطن تشریف لائے اور 28/ مئی 1912عیسوی میں جارج لائبریری اور علی نگر کے مؤمنین کی طرف سے عظیم الشان جلسہ کرکے اخبارات میں بھیج دیا۔ بیان کیا جاتا ہے ہندوستان کے شیعوں کا یہ پہلا جلسہ تھا اور اس کے بعد سیکڑوں جلسے ہوئے، آپ کے جلسہ کے بعد آیۃ اللہ سید نجم الحسن نوراللہ مرقدہ نےمولانا حافظ سید فرمان علی صاحب سے فرمایا ایک بچہ نے بھیکپور میں جلسہ کردیا لیکن لکھنؤ، امروہہ، پٹنہ وغیرہ کے مومنین نے اب تک کوئی جلسہ نہیں کیا!۔

ابتدائی زمانہ میں آپ نے لکھنؤ اور دہلی سے قلمی خدمتیں انجام دیں اور مایہ ناز اہل قلم بن کر چمکے، علامہ کی پوری زندگی قلمی خدمات کی انجام دہی میں گزرگئی اور آپ جہاں دیگر خدمات کی خواہش رکھتے تھے وہیں چنندہ افراد کی سوانح حیات کی تالیف بھی شامل تھی وہ بیان کرتے ہیں تبلیغی نوحوں، مراثی ، مبلغین اور واعظین کی خدمات اور ان کی سوانح عمری کی طباعت کی جائے مثلاً میر انیسؔ، مرزا دبیرؔ، مولانا مقبول احمد، مولانا سبط حسن، مولانا محمد رضا فلسفی، مولانا بہادر علی شاہ وغیرہ اور اسی طرح تمام تعزیہ داروں اور عزاداروں مثلاً میر نواب علی، مہاراجہ گوالیر ،فقیر بخشی وغیرہ کی زندگی کو پیش کیا جائے، حضرات مجتہدین عظام مثلاً علامہ مجلسیؒ، شیخ مفیدؒ، شیخ صدوقؒ، سید مرتضی علم الھدیٰؒ، سید رضی ؒکے ساتھ علماء و مجتہدین برصغیر کی سوانح حیات اور ان کی تصنیف و تالیف کی اشاعت کا بہترین انتظام کیا جائے۔

آپ دو مرتبہ عتبات عالیات کی زیارات سے مشرف ہوئے اور وہاں ہندوستان اور عراق کے مجتہدین نے آپ کی علمی بلندیوں کو دیکھ کر اجازات عطا فرمائے خصوصاً آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابولحسن اصفہانی نے اپنے گرانقدر اجازہ سے سرفراز فرمایا جس کے آپ مستحق تھے۔

موصوف ساری زندگی علمی کام انجام دیتے رہے 1942 عیسوی میں صوبہ بہار میں قیامت خیز سیلاب آیا جس سے ہزاروں افراد متأثر ہوئے اور آپ کے گھرکا ایک حصہ بھی گرپڑا جس میں آپ کی کتابیں اور اخبارات ضائع ہوگئے۔ علامہ نے علمی سرمایہ کو ضائع دیکھ کر وہ صدمہ لیا کہ طبعیت علیل ہوگئی، آپ زندگی کے آخری ایام تک کاٹھیا واڑ(گجرات) میں امام جمعہ و جماعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اوائل جون میں گجرات سے وطن واپس آتے ہوئے کانپور اسٹیشن پر پانی کے لئے اترے تو اچانک داعی اجل کو لبیک کہا اور اس علم و فضل کےدرخشندہ قمر کو 5/جون سنہ 1958 عیسوی میں کانپورکے قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا۔


ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی ،ج5،ص75، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2021ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .