اتوار 25 مئی 2025 - 13:13
نیابت سے بادشاہت تک؛ واجد علی شاہ اور فوجی تنظیم

حوزہ/ فوجی تنظیم و تشکیل پر سابقہ فرمانرواؤں کے انگریزوں سے معاہدے ہوچکے تھے جس بناپر واجد علی شاہ فوج کی تعداد میں اضافہ کے پابند تھے ۔انگریز تو یہ چاہتے تھے کہ اودھ کے تمام انتظامی معاملات ان کی نگرانی میں حل کئے جائیں، اس لئے فوج کی محدود تعداد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ تھی، اس کے باوجود ہرعہد میں نوابین اودھ نے معاہدے کی شرائط کی پاسداری کے ساتھ فوجی تنظیم پر توجہ دی۔ بادشاہ نے جلوس کے تیسرے سال ۱۲۶۵ھ میں مختلف شاہی رسالے اور پلٹنیں تشکیل دیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

فوجی تنظیم و تشکیل پر سابقہ فرمانرواؤں کے انگریزوں سے معاہدے ہوچکے تھے جس بناپر واجد علی شاہ فوج کی تعداد میں اضافہ کے پابند تھے ۔انگریز تو یہ چاہتے تھے کہ اودھ کے تمام انتظامی معاملات ان کی نگرانی میں حل کئے جائیں، اس لئے فوج کی محدود تعداد بھی ان کے سیاسی مقاصد کے لئے خطرہ تھی، اس کے باوجود ہرعہد میں نوابین اودھ نے معاہدے کی شرائط کی پاسداری کے ساتھ فوجی تنظیم پر توجہ دی۔ بادشاہ نے جلوس کے تیسرے سال ۱۲۶۵ھ میں مختلف شاہی رسالے اور پلٹنیں تشکیل دیں۔

رسالوں میں سلطانی ،اسدی،ترچھا،بانکا،غازی ،منصوری ،حسینی ،حیدری ،دکھنی ،بادشاہی ،خسروی ،خاقانی ،اور رسالۂ یکّہ ہا،شامل تھے ۔نجیبوں کی پلٹنوں کے نام جعفری ،عباسی ،حسام ،شمشیر ،ذوالفقار،دائودی ،رفعت ظفر ،فتح عیش،قیصری ،کاظمی ،علی غول ،صفدری ،فتح جنگ ،عسکری ،ناصری ،جرار ،فغفور،بھرمار اور ساونت ،وغیرہ تھے۔تلنگوں کی بٹالینوں میں جاں نثار ،فتح مبارک ،سروری ،خاص دل ،گھنگھور،جاں باز،خاقانی ،سکندری ،اکبری ،گلابی ،ظفر مبارک ،جہاں شاہ اور سلیمانی ،جیسے دستے موجود تھے ۔توپ خانوں کے نام بھی ان کی فوجی دلچسپیوں کا اظہار کرتے ہیں ۔بعض نام اس طرح تھے :توپ خانہ خسروری ،توپ خانہ کلاں ،توپ خانہ باغ براون،توپ خانہ قصر سلیمان،توپ خانہ بالک گنج ،توپ خانہ عنائتی ،توپ خانہ جہازسلطانی وغیرہ ۔(سلطان عالم واجد علی شاہ ص۔۳۵،مزید تفصیل کے لئے دیکھیے ’وزیر نامہ ‘ص۱۱۷تا۱۱۸)واجد علی شاہ اپنی فوجی سرگرمیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

’’میری طبیعت فرقہ سپاہ سے بہت مالوف اور اس کی نگہ داشت کی طرف بہت متوجہ تھی ۔لیکن آمدنی کی کمی ،خرچ کی زیادتی اور والد کی ممانعت کی وجہ سے اس کی نوبت کہاں آسکتی تھی ۔ناچار تیس عورتیں چوکی اور پہرے کے لئے ملازم رکھی تھیں اور ان کو روزانہ فارسی زبان کے قواعد سکھاتاتھا۔چند روز کے عرصے میں وہ قواعد میں ایسی مشاق اور ہوشیار ہوگئیں کہ انگریزی قواعد میری نظر میں نہ سماتی تھی اور ان میں سے ہر ایک اسلحہ کی صفائی اور شفافی وغیرہ میں انگریزی فوج کے لئے باعث رشک تھی ۔پچاس ترک سوار بھی میں نے ملازم رکھے اور ان کو بھی فارسی زبان میں ایسی تعلیم دی کہ فرنگی فوج کے لئے باعث رشک ہوگئے اور ان دونوں فرقوں کی افسری کے لئے حاجی محمد شریف کو جاں باز سرکار مرزاولی عہد بہادر کرنیل حاجی شریف علی خاں ،خطاب دے کر مقرر اور ممتاز فرمایا۔کرنیل مذکور نے قواعد میں اتنی سعی وکوشش کی کہ قواعد کے گھوڑے مثل آہنی دیوار کے معلوم ہوتے تھے ۔وہ کسی سپاہی سے ایک حبّہ رشوت نہیں لیتاتھااور اس کا حکم فوج پر ایساتھاکہ کیامجال جو قواعد کے میدان میں کوئی کسی سے بات کرسکے ۔‘‘(عشق نامہ ص۸۸تا۸۹)

بادشاہ بہ نفس نفیس فوج کی مشق ملاحظہ کرنے کے لئے میدان میں جاتے اور مختلف طریقوں سے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ۔نجم الغنی کا بیان ملاحظہ کیجیے:’’ابتدائے شوق میں اکثر بادشاہ بہ نفس نفیس میدان پریڈ میں جاکر اُن قواعد اور نیزہ بازی اور شمشیر زنی اور تفنگ اندازی کی مشق ملاحظہ فرماتے تھے اور تین تین چار چار ساعت تک گھوڑے پر سوار ہوکر دھوپ میں کھڑے رہتے تھے اور کبھی کبھی خوش ہوکر انعامات اور خطابات سے سرفراز کرتے تھے مگر ارباب نشاط کے زور نے اس شوق کو قائم نہ رہنے دیا‘‘۔(تاریخ اودھ جلد۵ص۱۲۵)

واجد علی شاہ کی فوجی تنظیم وتشکیل پر اعتراضات بھی کئے گئے ہیں جن میں بعض من گھڑنت اور انگریزی ایماپرکتابوں میں شامل کئے گئے۔جو بادشاہ فوجی تنظیم میں اس قدر دلچسپی رکھتاہووہ عورتوں کاایساگرویدہ نہیں ہوسکتاکہ پوری فوج کو انہیںکے ناموں سے منسوب کرکے مردانہ فوج کو زنانہ نسبتوں سے مشہور کردے ۔ان کے زنانہ فوجی دستوں نے ۱۸۵۷ء میں انگریزوں سے خوب لوہالیاتھامگر واجد علی شاہ کی اس مہارت کو بھی بدنام کرکے پیش کیاگیا۔ ۱۶نومبر۱۸۵۷ء کو انگریزوں نے سکندر باغ پر حملہ کرکے ،حفاظت پر مامور دوہزار سپاہیوں کو جو پامردی سے لڑرہے تھے،توپوں سے اُڑادیا۔سکندر باغ کی لوٹ میں انگریزوں کو بے شمار زروجواہر ہاتھ لگاتھا۔جو دولت مند بیگمات وہاں سکونت پذیر تھیں ان کا مال واسباب لوٹ لیاگیا۔لفٹننٹ کرنل گورڈن الیگزینڈر اس کے گواہ تھے کہ سکندر باغ پر حملے کے وقت ایسی قوی ہیکل حبشنیں تھیں جو بہادری سے لڑیں ۔جب تک انہیں قتل نہیں کردیاگیاکسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ وہ عورتیں تھیں ۔انگریز سارجنٹ فوربس میچل ایک عورت کا ذکر کرتاہے جو سکندر باغ کے صحن میں پیپل کے پیڑ پر بیٹھ کر انگریز فوجیوں کو گولی کا نشانہ بنارہی تھی اور آخر کار خود بھی گولی سے ہلاک ہوئی ۔بقول ادیبؔ:’’کچھ عجب نہیں کہ یہ وہی عورتیں ہوں جن کو بادشاہ نے ولی عہدی کے زمانے میں فوجی تربیت دے کر انگریزی فوج کے لئے باعث رشک بنادیاتھا۔‘‘(سلطان عالم واجد علی شاہ ص ۳۴)

بادشاہ کی اسی فوجی تنظیم اورجنگی مہارت سے تنگ آکر انگریز وں نے ان کی ذات پر طرح طرح کے الزامات عائد کئے اور ان کی فوج کو بھی زنانہ نسبتوں سے مشہور کرکے بدنام کرنے کی کوشش کی ۔مٹکاف لکھتے ہیں:’’جب امجد علی شاہ بادشاہ لکھنؤ نے ۱۸۴۷ء میں انتقال کیا تو واجد علی شاہ ان کے جانشین ہوئے ،جو فوج کی تنظیم میں ہمہ تن منہمک ہوگئے ۔احکام صادر کئے گئے کہ نمازصبح کے بعد پانچ بجے لکھنؤ کی تمام رجمنٹوں کو روزانہ پریڈ کرناہوگی ۔بادشاہ کا معمول تھاکہ وہ جنرل کی وردی میں فوج کو روزانہ چار پانچ گھنٹے قواعد کرواتے تھے ۔مزید برآں انہوں نے یہ حکم صادر کیاکہ اگر سلطنت کی ضرورتوں کے علاوہ وہ پریڈ میں غیر حاضر ہوں تو ان پر دوہزار روپے جرمانہ کرکے فوج میں تقسیم کردئیے جائیں اور اگر کوئی رجمنٹ پریڈ میں وقت پر نہ پہنچے تو اس پر بھی اتنی ہی رقم جرمانہ کی جائے ۔پیادوں کےدودستوں اور سواروں کے ایک رسالے کو مزید سزاکے طورپر دن بھر مسلح رہناپڑا۔بادشاہ کے اس انہماک سے بدگمانی پیداہوئی ۔انگریز ریذیڈنٹ نے فوج مہیاکرنے میں اتنی جاں فشانی کرنے کا سبب دریافت کیااور یہ تجویز پیش کی کہ اگر بادشاہ کو اپنے ملک کے تحفظ کے لئے فوج کی ضرورت ہے تو ان کو انگریز سپاہی رکھناچاہیے ،جن کی تنخواہ اودھ کے محاصل سے دی جائے ‘‘۔(ٹو نیٹیونریٹیوآف دی میوٹنی اِن دہلی،از آئی.سی.ٹی .مٹکاف بحوالہ سلطان عالم واجد علی شاہ ص۳۸)

واجد کی علی شاہ کی فوجی سرگرمیوں پر پابندی کے لئے ریذیڈنٹ نے ہر ممکن کوشش کی تاکہ کسی غیر متوقع صور تحال کا سدباب کیاجاسکے ۔اسی بناپر انگریزی حکومت کے سکریٹری برائے امور خارجہ نے ریذیڈنٹ کو تاکید کی وہ کہ بادشاہ کے فوجی مصارف میں تخفیف کے لئے ہر ممکن کوشش کرے جو مالیات کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔(اودھ انڈر واجد علی شاہ ص۴۳)درحقیقت انگریزوں کو اودھ کی خراب معیشت یا شاہی خزانے پر بڑھتے ہوئے بار کی ہرگز پرواہ نہیں تھی ،بلکہ وہ اودھ میں غیر متوقع صورت حال پیدانہیں ہونے دیناچاہتے تھے ۔اس کے کچھ دن بعدگورنر جنرل نے بادشاہ کو لکھاکہ اتنی بڑی فوج کا رکھنا۱۸۰۱ء کے معاہدے کی صریحی خلاف ورزی ہے ،اس لئے فوج کی تعداد میں کمی کی جائے ۔بادشاہ چارسوسواروں کا حفاظتی دستہ مقررکرناچاہتے تھے مگر ریذیڈنٹ یہاںبھی مانع ہوااور لکھاکہ مجھے یہ تاکید کے ساتھ کہناپڑرہاہے کہ آپ اپنی فوج میں اضافہ کاخیال ترک کردیجیے کیوں کہ اس سے امور مالیات میں دشواری پیداہورہی ہے ۔(اودھ انڈر واجد علی شاہ ڈاکٹر جی.ڈی.بھٹناگر ص۴۴)حالانکہ فوج میں اضافے کاسبب سرکش تعلقہ داروں اور زمین داروں کو قابو میں رکھنے کی ایک کوشش تھی مگر اس کو بھی انگریزوں نے پسند نہیں کیا۔فوج کی تخفیف کی بناپر سرکشوں نے سراٹھاناشروع کردیااور محاصل کے حصول میں بھی مشکل پیش آنے لگی ۔

اس تناظر میں واجد علی شاہ کی فوجی سرگرمیوں پر اعتراض نہیں کیاجاسکتابلکہ وہ پیش رو فرمانروائوں کے معاہدوں کےآگے مجبور تھے اور ان کی خلاف ورزی اودھ میں نئے سیاسی بحران کو جنم دے سکتی تھی ،جس کے لئے حکومت بالکل تیار نہیں تھی۔

جاری ہے...

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha