سانحہ ہندومان گڈھی پر واجد علی شاہ کی ذہنی کشمکش اور سیاسی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے محمد تقی احمد لکھتے ہیں: ’’یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ واجد علی شاہ جس مخمصہ میں پڑے تھے وہ معمولی نہ تھا۔ایک طرف مولوی امیر علی شہید علیہ الرحمۃ کا ارادۂ جہاداور تمام مسلمانوں کا جوش،دوسری طرف ہندوئوں کا ایک مسلمان بادشاہ سے رواداری کا مطالبہ، تیسری طرف انگریزوں کا مولوی صاحب شہید کو باغی سلطنت طے کردینا،یہ سب گتھیاں ایسی نہ تھیں کہ آسانی سے سلجھائی جاسکتیں۔
بادشاہ اور وزیر دونوں بخوبی سمجھتے تھے کہ مولوی صاحب کی طرف داری کا کیانتیجہ ہوگااور تعصب کا کیساسخت الزام عائد کیاجائے گااور ہندورعایا کی برافروختگی وبیزاری اس کا نتیجہ ہوگی لہذا التواکی کوشش کی گئی مگر’ پروانہ‘ اپنے شدت طلب سے مجبور تھا۔اس کو سیاسی ضروریات اور پابندیوں سے کیاغرض تھی، ظاہری اسباب یہ تھے کہ سلطنت ضبطی کا مسئلہ لندن میں ارباب حل وعقد کے سامنے زوروشور سے درپیش تھااور سلطنت اودھ کے انتزاع کا وقت آگیاتھا۔اور لارڈ ڈلہوزی عزرائیل کی صورت قبض روح کے لئے بالکل تیار تھے۔‘‘(آخری تاجدار اودھ ص۷۲تا۷۳)
مولوی امیر علی کے قتل کےبعد اہل سنت علمائے فرنگی محل سے متنفر ہوگئے اور ایک بڑی جماعت سلطان العلما کی گرویدہ ہوگئی۔سنّی جمعہ کے روز مسجد آصفی میں نماز اداکرنے کے لئےآنے لگے اور ان کے ثناخواں ہوئے۔نجم الغنی نے فتوی کا متن بھی نقل کیاہے، ملاحظہ ہو:
’’مجتہد صاحب (سلطان العلما) سے کسی نے پوچھاکہ جولوگ فیض آباد میں غلام حسین شاہ کے ساتھ شہید ہوگئے اور کلام اللہ کے ساتھ ہندوئوں نے بے ادبیاں کیں اس پر آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟مجتہدالعصر نے یہ دستخط کیا:قصاص مسلمانان از کافران وقصاص کلام اللہ وبنانمودن مسجد برحکام وقت بہ تجویز حاکم شرع واجب است۔‘‘اور جومسئلہ کہ مولوی سعداللہ اور مفتی محمد یوسف نے لشکر میں مولوی امیر علی صاحب کے بیان کیا، یہ ہے کہ:’’ جوکوئی مولوی امیر علی کے ساتھ ماراجائےگادوزخی ہے جس طرح کتّے بلّی مرتے ہیں اسی طرح مریں گے۔‘‘سویہ بات سن کے بہت لوگ مولوی امیر علی صاحب کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔(تاریخ اودھ جلد۵ص۲۳۶)
سلطان العلما کو مولوی امیر علی اور ان کے دوستوں کے قتل کا نہایت افسوس تھا اور وہ اس کے لئے حکومت اودھ کی غفلت کو قصوروار ٹھہراتے تھے۔واجد علی شاہ نے بروقت کوئی موقف اختیارنہیں کیا اور بادشاہ بعض منہ لگے افراد کی ایماپر ہنود کی حمایت کرتے رہے، انہی کے اشارے پر علمائے فرنگی محل سے وزیر علی نقی خاں نے مولوی امیر علی کے خلاف فتویٰ طلب کیا۔اسی محضرکا متن سلطان العلما کے پاس بھی بھیجاگیا، جس پر آپ نے مولوی امیر علی حمایت میں فتویٰ دیا۔نجم الغنی لکھتے ہیں:
’’کہتے ہیں مجتہدالعصر (سید محمد بن سیددلدار علی) کو بڑا غم ہے اور جتنے مولوی فرنگی محل میں تھے سبھوں نے بُرے بھلے مسئلے لکھ کر مولوی امیر علی کی جماعت بھی توڑدی اور انہیں قتل بھی کروادیا۔مگر مجتہدالعصر سے جس نے بھی مسئلہ پوچھاوہ دستخط کیاکہ سنّی وشیعہ بہت راضی ہوئے۔چنانچہ جتنے بھی اہل سنت ہیں سب نے فرنگی محل کے مولویوں کوچھوڑدیا اور ان کی مذمت اور ہجویںلکھ لکھ کر گلی کوچے میں دربہ در لگادیں اور مجتہدالعصر کے پاس جمعہ کے دن مسجد آصف الدولہ مرحوم میں سنّی لوگ جوق جوق آتے ہیں اور ان کے ثناخواں رہتے ہیں ۔‘‘(تاریخ اودھ جلد۵ص۲۳۵تا۲۳۶)
آپ کی عدم حمایت کی بناپر بادشاہ اور وزیر علی نقی خاں ضرور بدگمان ہوئے لیکن آپ نے حکومت کے دبائو میں فیصلہ نہیں بدلا۔آپکی اسی علمی جلالت اور شجاعت کو دیکھتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایاتھا ؎
رہبر دین علی بودست و ہم نام نبی
ہیبتے از رعب اودر قلب کافر داشتند
علم منطق کے ایک ماہر شخص نے مولوی امیر علی کے قیام اور قتل کے متعلق آپ کو الجھانے اور مافی الضمیر جاننے کی غرض سے لکھاکہ: ما قولکم ایھا المفتیون فی ان المولوی امیر علی فی المقدمۃ المتصورۃ بانواعھا واجناسھا شھیدااوعکسہ.
سلطان العلماء نے جواب میں لکھا :لقضیۃ تنعکس عکس المستوی وکمن النقیض کمالا یخفی۔ سوال و جواب مستفتی اور مفتی دونوں کے مشکلات کی تصویر ہے میرا فرض ہے کہ عکس نقیض کی تعریف لکھ کر آگے بڑھتا ہوں میزان منطق میں ہے:وعکس النقیض ہو عبارۃ عند المتقدمین عن تبدیل کل طرفی القضیۃ بنقیض الا خر مع بقاء الصدق و اللکیف کما یقال فی کل انسان حیوان کل لا حیوان لا انسان وعندالمتاخرین عبارۃ عن جعل نقیض الثانی فی الجزء الاول و عین الاول الثانی مع موافقۃ الاصل فی الکیف وموافقۃ فی الصدق کما یقال فی کل انسان حیوان لا شی مما لیس بحیوان بانسان والفرق بینھما یعرف فی المطولات.(تاریخ سلطان العلما از مولانا آغامہدی ص۸۴)اس جواب سے آپ کی دوراندیشی اور سیاسی بصیرت کا اندازہ بھی ہوتاہے۔
اودھ میں ہمیشہ ہندود اور اہلسنت اہم مناصب پر فائز رہے اور حکومت نے کبھی ان کے ساتھ امیتازی سلوک روارنہیں کیا،جب کہ اودھ کے حکمران امامیہ عقیدیے کے پابندتھے اس کےباوجود ان کے یہاں کسی طرح کا تعصب اورذرہ برابر مذہبی منافرت کا جذبہ کارفرمانہیں تھا۔اودھ میںراجہ بینی بہادر،راجہ کندن لال،باپو پورن چندر،وزیر اعظم شتاب رائے، مہاراجہ دھراج مشیرالدولہ،راجہ بال کرشن،راجہ جوالا پرشاد،منشی اجودھیا پرشاد کھتری، بخشی الملک راجہ لال جی،راجہ نواز سنگھ،راجہ جھائو لال،راجہ ٹکیت رائے ،افتخارالدولہ میوہ رام ،راجہ بھوانی پرشاد،راجہ رتن سنگھ جیسے ہندواہم عہدوں پر فائز رہے ۔ان کے علاوہ بعض وہ ہندوجو دربار،فوج اور دیگر محکموں سے منسلک تھے،ان کے نام یہاں نقل نہیں کئے گئے۔نواب اصغر حسین نوابین اودھ کے سیکولر رویےکے متعلق لکھتے ہیں:’’دادودہش و مراعات ہندو،مسلمانوں،شیعہ،سنّی اچھوت،عیسائی وغیرہ سب کے ساتھ برابر برابر کی جاتی تھی۔جہاں کسی امام باڑے کے لئے زمین یا گائوں بطور جاگیر یامعافی دیاجاتاتھاوہاں اہل سنت کی خانقاہوںاور مسجدوں وغیرہ اور ہندوئوں کے مندروں ،سمادہ اور دھرم شالوں کے واسطے زمین وجاگیرات عطاہوتی تھیں…‘‘(مطالبۂ اودھ ازنواب اصغر حسین ص۵)
نوابین اودھ نے تمام مسالک ومذاہب کے مذہبی مراسم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیااور ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر کے لئے خطیر رقمیں اور زمینیں عطاکیں ۔اسی طرح اودھ کے ہندوئو ں نے بھی امام باڑے تعمیر کروائے اور مذہبی رواداری کے فروغ میں نمایاں کردار اداکیا۔لکھنؤ سے بنتھرااور نواب گنج ہوتے ہوئے جو سڑک کانپور تک گئی ہے اس پر جگہ جگہ تالاب اور کنویں تعمیر کروائے گئے تھے نیز مسجد اور مندر بھی باہم بنوائے گئے تاکہ دونوں مذہب کے لوگ باآسانی اپنے مذہبی فرائض کو انجام دے سکیں ۔(مطالبہ اودھ از نواب اصغر حسین ص۶)لکھنؤ میں راجہ جھائو لال کا بنوایاہواامام باڑہ بہت مشہور ہے جہاں بیت المال قائم ہواتھا،اسی مناسبت سے راجہ جھائولال کے امام باڑے کو بیت المال کے نام سے بھی جاناجاتاہے ۔اسی طرح ہندوئوں اور مسلمانوں کی بنوائی ہوئیں مشترکہ مذہبی عمارتیں اودھ میں موجود ہیں جو یہاں کی متنوع ثقافت اور تہذیبی رواداری کی مثالیں ہیں۔
جاری....









آپ کا تبصرہ