اتوار 18 مئی 2025 - 12:00
سلطان عالم محمد واجد علی شاہ؛ نیابت سے بادشاہت تک

حوزہ/ محمد علی شاہ کے زمانۂ اقتدار میں ان کا خطاب ’ناظم الدولہ محمد واجد علی خان بہادر‘ تھا؛ پھر ’خورشید حشمت مرزا محمد واجد علی خان بہادر ‘ہوا۔ امجد علی شاہ سریر آرائے سلطنت ہوئے تو ولی عہد کی حیثیت سے ان کا خطاب ’المنصور سکندر جاہ سلیمان حشم صاحب عالم ولی عہد مرزا واجد علی خان بہادر‘ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

ولادت

واجد علی شاہ بادشاہ غازی الدین حیدر کے عہد میں ۱۰ ذی قعد ۱۲۳۷ھ مطابق ۳۰ جولائی ۱۸۲۲ء کو متولد ہوئے ۔(سلطان عالم واجد علی شاہ از مسعود حسن رضوی ادیبؔ ص۲۷)پورا نام مرزا واجد علی خاں تھا۔نجم الغنی نے ۱۰ ذیقعد ۱۲۳۸ھ سنہ ولادت نقل کیا ہے، لیکن ادیب ؔ کا فرمایا ہوامستند ہے ۔امین الدولہ نواب امداد حسین خان جو ان کے موروثی اتالیق تھے تعلیم وتربیت پر مامور ہوئے ۔ان کے حکومتی تجربات اور جہاں دیدگی سے خوب کسب فیض کیا۔پیدائش کے تقریباً پچیس سال بعدآخری تاج دار کی حیثیت سے تخت بادشاہت پر جلوہ افروز ہوئے۔

محمد علی شاہ کے زمانۂ اقتدار میں ان کا خطاب ’ناظم الدولہ محمد واجد علی خان بہادر‘ تھا۔پھر ’خورشید حشمت مرزامحمد واجد علی خان بہادر ‘ہوا۔امجد علی شاہ سریر آرائے سلطنت ہوئے تو ولی عہد کی حیثیت سے ان کاخطاب ’المنصور سکندر جاہ سلیمان حشم صاحب عالم ولی عہد مرزاواجد علی خان بہادر‘ہوا۔

شادی خانہ آبادی

واجد علی شاہ کا عقد نکاح ۱۲۵۳ھ عین نوجوانی میں اشرف الدولہ احمد علی خان بہادرکی پوتی اور نواب علی خان بہادر کی دخترملکۂ مخدرہ عظمیٰ عالم آرا بیگم نواب بادشاہ محل عرف خاص محل کے ساتھ ہوا ۔ بعد عقد ان کا خطاب اعظم بہوقرارپایا۔(وزیر نامہ ص۹۸)مسند نشینی کے بعد دوسری شادی ۴شعبان۱۲۶۷ھ مطابق۵ جون ۱۸۵۱ءکو وزیر علی نقی خاں کی بیٹی حضور عالیہ ملکۂ اودھ اختر محل نواب رونق آرابیگم کے ساتھ ہوئی۔اس تقریب نکاح میں بادشاہ کی تمام بیگمات نے شرکت کی مگر اعظم بہونے تقریب میں شرکت سے احتراز کیا۔(تاریخ اودھ جلد۵ص۹۸)بقول ادیب:’’اس طرح واجد علی شاہ کی دونوں بیاہتابیویاں وکیل السلطنت سید یوسف علی خاں کی پرپوتیاں اور رشتے میں چچازاد بہنیں تھیں‘‘۔(سلطان عالم واجد علی شاہ ص۲۸)منکوحہ بیویوں کی تعداد اس کے علاوہ بھی نقل ہوئی ہے،مزید ممتوعہ ازواج بھی تھیں جن کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ۔(تفصیل کے لئے دیکھیے :بیگمات اودھ ص۲۳۹ تا آخر )

ولی عہدی

محمد علی شاہ کے انتقال کے بعد جب امجد علی شاہ تخت نشین ہوئے تو انہوں نے اپنے بڑے بیٹے مصطفےٰ حیدر کے بجائےدوسرے بیٹے ناظم الدولہ خورشید حشمت مرزاواجد علی خاںکو اپنا ولی عہد مقررکرکے ابوالمنصور سکندر جاہ سلیماں حشم صاحب عالم بہادر خطاب عطاکیااور قلم دان کی خدمت سپرد کردی۔جب کہ مصطفےٰ حیدر خلف اکبر تھے مگر انہیں تخت وتاج سے محروم کردیاگیا۔بعض نے تحریرکیاہے کہ ان کی نااہلی کی بناپر واجد علی شاہ کو ولی عہد مقررکیاگیامگر یہ الزام درست معلوم نہیں ہوتاکیونکہ اس طرح تو واجد علی شاہ بھی زمانۂ شہزادگی کی متعیش زندگی کی بناپر ولی عہدی کے اہل نہیں تھے ۔وہ دولت کے اسراف سےچنداں گریز نہیں کرتے تھے اسی بناپر ان کے دادامحمد علی شاہ نے ان کا کوئی وظیفہ مقرر نہیں کیاتھا۔ (عشق نامہ فارسی قلمی ص۱۰) ولی عہدی کے زمانے میں ان کی تنخواہ مقرر ہوئی البتہ یہ معلوم نہیں کہ تنخواہ کی رقم کیاتھی۔البتہ ادیب ؔکے بقول قرائن سے ان کی تنخواہ کا اندازہ کیاجاسکتاہے ۔ان کے مطابق ولی عہد اوروزیر سلطنت کی تنخواہوں میں تفاوت نہیں ہوناچاہیے اس بناپر پچیس ہزارروپے کا تخمینہ لگایاجاسکتاہے کیونکہ ان کے والد امجد علی شاہ کی تنخواہ بھی ولی عہدی کے زمانے میں پچیس ہزار روپے ماہانہ تھی۔(سلطان عالم واجد علی شاہ ازمسعود حسن ادیبؔ ص۲۹)

تخت نشینی

امجد علی شاہ کی وفات کے بعد ۲۶ صفر ۱۲۶۳ھ مطابق ۱۳ فروری ۱۸۴۷ء کو واجد علی’ابوالمنصور سکندرجاہ بادشاہ عادل قیصر زمان سلطان عالم محمد واجد علی شاہ‘ کے لقب کے ساتھ تخت نشین ہوئے ۔امیر علی خان لکھتے ہیں:’’چون نیّر اقبال برسمت الراس اوج کمال رسید اورنگ شاہی و مسند ظل اللہی را بہ ساعتی محمود وآوانی مسعود تاریخ ۲۶ صفر ۱۲۶۳ہجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۴۷عیسوی زیر سایۂ جلوس میمنت مانوس خود فرود آوردہ وتاج حکمرانی وعلم جہانبانی رابہ بہین آوانی وخوشترین زمانی زیب سرودوش عظمت ومفاخرت ہم آغوش خود کردہ ،ظل مکرمت ومرحمت برمفارق جہان وجہانیان باکمال رافت ملوکانہ وغایت عنایت شاہانہ بگسترانیدو بہ شکر دولت علیای سلطنت وخزائن ودفائن بروی عالمیان بکشادہ‘‘۔(وزیر نامہ ص۹۹تا۱۰۰)مہاراجہ بال کرشن نےفرمان جلوس بڑے صاحب کو پڑھ کر سنایاجس کا متن اس طرح تھا: مابدولت واقبال نے بہ اعانت وامداد آنریبل سرکار کمپنی انگریز بہادر وراثت آبائی پر تخت سلطنت کے جلوس کیا‘‘۔مجددالدولہ کشتی میں تاج شاہی لائے ۔بڑے صاحب نے اپنے ہاتھ سے فرق شاہی پر رکھااور بادشاہت کا اعلان کیا۔مہاراجہ جے گوپال ثاقبؔ نے سکّہ کہا ؎

سکہ زدبرسیم وزر از فضل وتائید الہ

ظلّ حق واجد علی سلطان عالم بادشاہ

تخت نشینی کے وقت ان کی عمر شمسی حساب سے چوبیس برس ساڑھے چھ مہینے اور قمری حساب سے پچیس برس ساڑھے تین مہینے تھی۔(سلطان عالم واجد علی شاہ از ادیب ص۲۹)واجد علی شاہ نے اپنے باپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے قدیم شاہی ملازمین کو برطرف نہیں کیابلکہ انکے عہدوں کو بحال رکھا۔البتہ فوج کے چند نااہل افسروں کو معطل کرکے ان کی جگہ قدیم اور تجربہ کار افسروں کو تعینات کیا۔

جلوس کے تیسرے دن امجد علی شاہ کا فاتحہ ہوا۔فاتحہ خوانی کی رسومات کے بعد حکومتی معاملات کی طرف متوجہ ہوئے ۔اُمرااور شاہزادوں کوحکم ہوا کہ ہر اتوار کو صبح کوٹھی فرح بخش میںحاضرہواکریں تاکہ دربار منعقد ہوسکے ۔تمام اُمرااور شاہزادے صبح ۹ بجے دربار میں حاضر ہوجاتے جہاں بادشاہ ضروری معاملات کو دیکھتے اور ان کےتصفیہ کی کوشش کرتے ۔سرکاری کاغذات کے ملاحظے کے وقت تمام متعلقہ افراد حاضر رہتے ۔دوپہر کے بعد جب زوال شمسی کی نوبت بجتی تھی تو مجلس برخاست ہوتی۔اس کے بعد قدیم مقرب افراد کے ساتھ بزم سجتی تھی ۔واجد علی شاہ کی امور سلطنت میں بے پناہ رغبت کے متعلق صاحب احسن التواریخ لکھتے ہیں:’’بادشاہ بہ تعمیل قواعد عدالت طلوع صبح سے آدھی رات تک ایک دم استراحت نہیں فرماتے اور بہ ملاحظہ عرضداشت سائلان واہل معاملات مرفوعات ارباب حاجات و قراطیس وقایع بلادوقریات اور بہ سماعت روداد زبانی عرض بیگیان وخواہش مندان بہ حضور خاص بے تعرض وتعلق متوسطان واجرائے احکام وداددہی مستغیثان وتعزیر جگا پیشگان وتنقیح مقدمات ملکی ومالی و تقرر وظائف ادانی واعالی مصروف رہتے ...اکثر مقدمات بہ تجویز خاص بادشاہ تصفیہ ہوتے ‘‘۔(احسن التواریخ ص۴۳۔۴۴)

جاری.....

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha