حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ بنت الہدیٰ ہریانہ ہندوستان کے سربراہ نے حوزہ علمیہ قم المقدسہ کی سو سالہ تاسیس کے موقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صدی، کاغذ پر لکھی جانے والی کوئی معمولی تاریخ نہیں، بلکہ ایک روشن، جاندار، روحانی اور فکری انقلاب کی وہ تمثیل ہے، جس نے علم کی تاریکیوں میں چراغ جلائے، دلوں میں یقین کی روشنی بھری اور افکار کو عمل کی چوٹیاں عطا کیں۔
انہوں نے کہا کہ صدیاں بیت جاتی ہیں، وقت کا کارواں گزرتا رہتا ہے، لیکن کچھ ادارے، کچھ افکار اور کچھ قافلے تاریخ کے سینے پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں جو وقت کے گرد و غبار سے دھندلا نہیں سکتے؛ آج ہم اسی عظیم ادارے کی صد سالہ پر شکوہ سالگرہ پر جمع ہیں، جسے تاریخ نے حوزہ علمیہ قم کے نام سے جانا، پہچانا اور سلام کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ صدی، کاغذ پر لکھی جانے والی کوئی معمولی تاریخ نہیں، بلکہ ایک روشن، جاندار، روحانی اور فکری انقلاب کی وہ تمثیل ہے، جس نے علم کی تاریکیوں میں چراغ جلائے، دلوں میں یقین کی روشنی بھری، اور افکار کو عمل کی چوٹیاں عطا کیں۔
مولانا عقیل رضا ترابی نے کہا کہ حوزہ علمیہ قم، محض در و دیوار کا نام نہیں، بلکہ ایک ایسی نورانی روایت کا تسلسل ہے جو قرونِ وسطیٰ کے مکتبِ بغداد سے لے کر مشہد و نجف کی گلیوں تک، اور پھر قم المقدسہ کے صحن و دالان تک اپنے نقوش ثبت کرتی آئی ہے؛ یہ وہی حوزہ ہے جس نے فکری تحجر کے خلاف فکرِ تازہ کی جنگ لڑی، جمود کے خلاف اجتہاد کا عَلَم بلند کیا، اور سلاطینِ وقت کے جبر کے سامنے ”کلمةُ الحق“ بن کر ابھرا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قم کی سرزمین نے ایسے رجالِ علم و عمل پیدا کیے جنہوں نے نہ صرف منبر پر وعظ فرمایا، بلکہ محراب میں قیادت، مدرسے میں تدریس، میدان میں شہادت اور قوموں میں بیداری کا بیج بویا؛ امام خمینیؒ کا جہادِ خاموش ہو یا شہید مطہریؒ کی قلمی کاوشیں، آیت اللہ بہجتؒ کا عرفانی سکوت ہو یا آیت اللہ سبحانی کا علمی شور—ہر ایک نے حوزہ علمیہ قم کی عظمت کو نئی جہت عطا کی۔
مدرسہ بنت الہدیٰ ہند کے سربراہ نے کہا کہ آج جب ہم اس بین الاقوامی کانفرنس کے بابرکت سائے تلے جمع ہیں، تو یہ فقط ایک اجتماع نہیں، بلکہ ایک تجدیدِ عہد ہے؛ ایک فکری احیاء کی صدا، ایک وحدتِ اُمت کا پیغام، اور ایک روحانی بیداری کا لمحہ ہے؛ ہم سب پر واجب ہے کہ اس علمی، فکری اور روحانی ترکے کو محض ماضی کی تاریخ نہ بننے دیں، بلکہ اسے عصرِ حاضر کے سوالات، چیلنجز اور بحرانوں کا جواب بنائیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ آئندہ نسلیں بھی حوزہ علمیہ قم کی عظمت پر ناز کریں، تو ہمیں اس کی روح کو زندہ رکھنا ہوگا—وہ روح جو صدق و اخلاص سے لبریز ہو، وہ جو قرآن و سنت کی تعبیر ہو، وہ جو محراب سے میدان تک ایک مسلسل تحریک ہو۔
مولانا عقیل رضا ترابی نے کہا کہ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ حوزہ علمیہ قم نے نہ صرف ایران، بلکہ برصغیر، افریقہ، یورپ اور امریکہ کی علمی فضاؤں میں بھی اپنے اثرات ثبت کیے ہیں۔ آج ہم برصغیر کے وہ طالب علم ہیں جن کے خوابوں کی پیشانی پر “قم” ایک قبلے کی طرح چمکتا ہے، اور جن کے افکار کی روشنی قم کے مشاہدِ نور سے منعکس ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اپنے اس خاکسار قلم کے ساتھ حوزہ علمیہ قم کی خدمت میں نہایت عقیدت و محبت کے ساتھ مبارکباد پیش کرتا ہوں، اور اس بین الاقوامی کانفرنس کے جملہ منتظمین، معاونین، حاضرین و مہمانانِ گرامی کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس موقع کو صرف جشن نہیں، بلکہ ایک علمی تحریک میں بدل دیا، دعا ہے کہ یہ قافلہ، یہ حوزہ، یہ چراغ، یہ فکر رہتی دنیا تک سلامت رہے، اور “قم” کا نام ہمیشہ علم، عمل، اخلاص اور تقویٰ کا مرقع بن کر چمکتا رہے۔









آپ کا تبصرہ