اتوار 11 مئی 2025 - 10:21
9 مئی روزِ وفات بانی تحریکِ دینداری، مولانا سید غلام عسکری؛ علم و عمل اور تحریکِ بیداری کا سفیر

حوزہ/ تاریخ کے افق پر کبھی کبھی ایسی شخصیات ابھرتی ہیں جو نہ کسی معروف خاندان کی چشم و چراغ ہوتی ہیں، نہ ان کے پیچھے کوئی جماعتی لابی، سیاسی پشت پناہی یا وراثتی اثرو رسوخ ہوتا ہے۔ وہ نہ دولت و حکومت کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز رکھتے ہیں، نہ مناصب و القاب کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔ نہ شور مچاتے ہیں، نہ اپنی خدمت کے صلے میں واہ واہ کے منتظر ہوتے ہیں ۔ مگر ان کا سکوت بھی صدا بن جاتا ہے، اور ان کا عمل چراغِ رہ بن کر نسلوں کی پیشانی کو روشن کر جاتا ہے۔

تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ کے افق پر کبھی کبھی ایسی شخصیات ابھرتی ہیں جو نہ کسی معروف خاندان کی چشم و چراغ ہوتی ہیں، نہ ان کے پیچھے کوئی جماعتی لابی، سیاسی پشت پناہی یا وراثتی اثرو رسوخ ہوتا ہے۔ وہ نہ دولت و حکومت کی چوکھٹ پر جبینِ نیاز رکھتے ہیں، نہ مناصب و القاب کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔ نہ شور مچاتے ہیں، نہ اپنی خدمت کے صلے میں واہ واہ کے منتظر ہوتے ہیں ۔ مگر ان کا سکوت بھی صدا بن جاتا ہے، اور ان کا عمل چراغِ رہ بن کر نسلوں کی پیشانی کو روشن کر جاتا ہے۔

مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ ایسی ہی ایک مردِ درویش، مردِ بصیرت شخصیت کا نام ہے۔ پیوند زدہ لباس، مٹی کی باس، اور دل میں قرآن و عترتؑ کی روشن شمع—یہی ان کا ساز و سامان تھا۔ مگر ان کے اندر وہ نورِ یقین اور عزمِ مسلسل تھا جس نے علم و عمل کی زمین کو زرخیز کیا، اور ملت کو اس کی گم شدہ شناخت یاد دلائی۔ وہ ایک ایسا چراغ تھے جس نے نہ صرف اپنی لو سے ظلمتوں کو روشن کیا، بلکہ دوسروں کو بھی چراغ جلانے کا ہنر بخشا۔

بیداری کی پہلی صدا – 1968 کا پس منظر :

تقسیمِ ہند کو دو دہائیاں بیت چکی تھیں، مگر ملت جعفریہ کے زخم ابھی بھی رس رہے تھے۔ یہ محض زمین کا بٹوارہ نہ تھا، بلکہ تہذیبوں کا انقطاع، تشخص کی شکست، اور علمی ورثے کی شکست و ریخت تھی۔ عزاخانے، مدارس، موقوفات اور علمی مراکز—کبھی جن پر قوم کو ناز تھا—ایک اجنبی سرحد کے پار رہ گئے۔ اور جو باقی بچا، وہ بے یقینی، غربت اور فکری پریشانیوں کا ایک ویران منظرنامہ تھا۔ ملت کا وہ نوجوان جو کبھی منبرِ حسینؑ کے سائے میں پرورش پاتا تھا، اب نوکری کی تلاش میں اپنی شناخت سے ہی بیگانہ ہو رہا تھا۔

ایسے تاریک اور بے سمت ماحول میں مولانا سید غلام عسکری نے نہ اعلان کیا، نہ منشور جاری کیا، نہ فنڈریزنگ کی مہم چلائی—بلکہ ایک اَن کہی صدا پر لبیک کہا، اور خاموشی سے ایک ایسا کارواں اٹھایا جس کا سرمایہ صرف اخلاص، عمل اور دردِ ملت تھا۔

سفرِ تبلیغ – جفا کشی کی ایک روشن داستان:

مولانا کا اندازِ سفر کسی شاہی قافلے کا منظر پیش نہیں کرتا۔ نہ ان کے ساتھ پروٹوکول تھا، نہ ان کے گرد منتظمین کا ہجوم۔ ان کا رفیقِ سفر یا تو تانگہ تھا یا بیل گاڑی، کبھی گھوڑا گاڑی، اور اکثر پیدل راستہ۔ کندھے پر کتابوں کا تھیلا، جیب میں چند سکے، اور دل میں ایک آگ جو قوم کے بچوں کو قرآن اور آل محمدؑ کی تعلیم دینے کے لیے روشن رہتی۔

نہج البلاغہ میں امیرالمؤمنینؑ نے فرمایا: “إنّ العاملَ على قَدْرِ نَصَبِهِ”“انسان کی عظمت اس کی محنت کے مطابق ہے۔”

مولانا کی محنت کسی دفتر کی چار دیواری میں محدود نہ تھی—وہ میدان کا مرد تھا، جو ہر مکتب کی نگرانی خود کرتا، استاد کا انتخاب خود کرتا، طالب علم کے احوال سے خود باخبر رہتا۔

مالی دیانت—خلوص کا امتحان

جس زمانے میں قوم کے پاس روٹی کے دانے اور پہننے کو کپڑا نہ تھا، مولانا نے ان کے دروازے پر دستک دی—نہ سوالی بن کر، بلکہ معلم و راہنما بن کر۔ نہ صرف چندہ لیا، بلکہ یہ شعور دیا کہ دین کا کام کوئی خارجی ذمہ داری نہیں، بلکہ ایک اجتماعی فرض ہے۔

لیکن جو چیز سب سے نمایاں تھی، وہ ان کی مالی شفافیت تھی۔ ایک ایک پائی کا حساب، ہر عطیہ کی رسید، اور کبھی اپنی ضرورت کو قوم کے خرچ میں شامل نہ کرنا—یہ وہ دیانت تھی جس نے قوم کا دل جیتا۔ زمینیں وقف ہوئیں، زیورات عطا ہوئے، ایف ڈی تک قوم نے ان کے مشن پر قربان کی۔ کیونکہ یہ اعتماد خطابت سے نہیں، کردار سے پیدا ہوتا ہے۔

دین کا نظم—موعظہ نہیں، منصوبہ

مولانا نے منبر پر فقط گریہ نہیں کرایا، بلکہ ملت کو سمجھایا کہ دین فقط محراب و موعظہ نہیں، بلکہ نظم، شفافیت، قربانی، اور اجتماعی بیداری کا نظام ہے۔

قرآن کہتا ہے: “لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّى تُنْفِقُوا مِمّا تُحِبّونَ” “تم ہرگز نیکی کو نہ پا سکو گے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔”

مولانا نے دین کو صرف محبت کا نغمہ نہیں، قربانی کا معرکہ بنایا۔ وہ بتاتے کہ اگر قوم مکتب بچا سکتی ہے، تو وہ کل مدرسہ بھی بنا سکتی ہے، اور پھر معاشرے کو بدلنے والی قوت بھی بن سکتی ہے۔

وفات—نہ ختم ہونے والی ذمہ داری

نو مئی ۱۹۸۵ء، شبِ جمعہ، کشمیر کے خاموش گاؤں منڈہر میں جب مولانا اپنے سفرِ آخرت کی طرف بڑھے، تو منبر پر جانے سے قبل دعائے کمیل کی گونج ابھی باقی تھی۔ ان کا لبیک آخری نہ تھا، بلکہ اگلی نسلوں کے لیے ایک صدا تھی۔

ایسا لگا جیسے منبرِ عرش سے آواز آئی ہو:

“غلام عسکری، تم نے اپنے حصے کی شمع جلا دی،

تم نے قوم کو رستہ دکھا دیا،

تم نے نہ اپنے لباس کی پروا کی، نہ رات کے چین کی،

اب آ جاؤ… ہم نے تمہیں منبرِ زمین سے عرش پر منتقل کرنا ہے۔”

اے مالکِ ارض و سما!

ہم تیرے اس بندے کے لیے دعا گو ہیں،

جس نے مٹی کی چادر اوڑھ کر آسمانی پیغام سنایا،

جس نے دشوار راہوں پر چل کر ملت کو شعور کی چادر اوڑھائی،

جس نے اپنی نیند قربان کی تاکہ قوم کے بچے قرآن سے آشنا ہوں۔

تو اسے وہ مقام عطا فرما

جو صدق کی آخری منزل،

قربانی کی انتہا،

اور عشق کی معراج ہو۔

اور اے پروردگار!

ہم تیرے حضور عاجزانہ دعا کرتے ہیں

اپنے محترم استاد، مولانا سید صفی حیدر صاحب کے لیے—

جن کے ہاتھوں میں آج وہ امانت ہے

جو کبھی مولانا غلام عسکریؒ کے اخلاص سے روشن ہوئی تھی۔

اے رب کریم!

انہیں وہ ہمت عطا فرما

جو ہر فتنہ، ہر آزمائش، اور ہر طوفان میں

اس چراغ کو بجھنے سے محفوظ رکھے۔

ان کے قدموں کو وہ استقامت دے

جو قافلہ سالاروں کا شیوہ ہوتی ہے،

ان کے ہاتھوں میں وہ قوت رکھ

جو خدمتِ دین کے پرچم کو تھامے رکھتی ہے،

اور ان کے دل کو وہ حرارت عطا فرما

جو اداروں کو صرف باقی نہیں رکھتی،

بلکہ انہیں بیدار اور مؤثر بناتی ہے۔

اے اللہ!

تنظیم المکاتب کا یہ کارواں

علم، اخلاص، اور قربانی کی نئی منزلوں کی طرف

یقین اور تدبّر کے ساتھ رواں رہے،

یہ ادارہ تیری نصرت سے ترقی، تاثیر، اور قیادت کی نئی بلندیوں کو چھوئے، اور یہی ادارہ تیرے دین کی سرفرازی، اور تیرے ولیِ عصرؑ کے ظہور کی عملی تمہید بنے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha