جمعہ 9 مئی 2025 - 00:22
علماء کو عصر حاضر کی زبان اور ٹیکنالوجی کے ذریعے پیغام عام کرنا چاہیے، مولانا رضا حیدر زیدی

حوزہ/ حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ تاسیس کے موقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں مدیر حوزہ علمیہ غفران مآب لکھنؤ اور نائب امام جمعہ لکھنؤ، مولانا رضا حیدر زیدی نے حوزہ نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ عصر حاضر میں علماء کو اپنی تقاریر اور پیغامات کو عام کرنے کے لئے جدید زبان اور ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حقیقی علم دنیا بھر میں مؤثر انداز سے پہنچ سکے اور دشمنوں کے پھیلائے ہوئے جھوٹ کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ قم کی سو سالہ تاسیس کے حوالے سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس مدرسہ امام کاظم علیہ السلام قم المقدسہ میں منعقد ہوئی۔ اس تاریخی موقع پر دنیا بھر سے جید علمائے کرام اور محققین نے شرکت کی اور اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر حوزہ نیوز کے نمائندے نے مدیر حوزہ علمیہ غفران مآب لکھنؤ اور نائب امام جمعہ لکھنؤ، مولانا رضا حیدر زیدی سے خصوصی گفتگو کی۔

یہ گفتگو سوال و جواب کی شکل میں پیش کی جا رہی ہے

سوال: سب سے پہلے ہمارے قارئین کے لئے اپنا تعارف اور ہندوستان میں اپنی خدمات کے بارے میں مختصراً بتائیں۔

مولانا رضا حیدر زیدی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ میرا نام سید رضا حیدر زیدی ہے۔ میرا وطن بارہ بنکی ہے، ابتدائی تعلیم میں نے لکھنؤ کے مدرسہ ناظمیہ سلطان المدارس سے حاصل کی۔ 1987 میں سیریا گیا، جہاں 8 سال تک میں نے حوزہ علمیہ امام خمینی میں تعلیم حاصل کی۔ 1995 میں ایران منتقل ہوا اور اس وقت لکھنؤ میں مقیم ہوں۔ یہاں حوزہ علمیہ غفران مآب میں تدریس کا فریضہ انجام دے رہا ہوں۔ علاوہ ازیں، آصفی مسجد میں نائب امام جمعہ کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہا ہوں اور اس کے ساتھ تبلیغی کام بھی جاری ہے۔

سوال: آج آپ اس انٹرنیشنل کانفرنس میں موجود ہیں اس حوالے سے کن اہم نکات پر روشنی ڈالنا چاہیں گے؟

مولانا رضا حیدر زیدی: کانفرنس کا مقصد حوزہ علمیہ کی سو سالہ تاسیس کا جشن منانا ہے اور یہ بہت اہم موقع ہے۔ سو سال پہلے آیت اللہ العظمیٰ عبدالکریم حائری رہ نے حوزہ علمیہ کی جدید شکل کی بنیاد رکھی تھی، اور اس کی بنیادیں آج ہمارے سامنے ہیں۔ آقای حائری کی عظمت کا تذکرہ کیا جا رہا تھا، جنہوں نے 50,000 تومان قرض لے کر حوزہ چلایا تھا، جو اُس وقت بہت بڑی رقم تھی۔ اس بات کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ وہ نہیں سوچ رہے تھے کہ قرض کہاں سے ادا ہوگا، بلکہ ان کی فکر یہ تھی کہ روز قیامت اللہ کے سامنے وہ کیا جواب دیں گے۔

آج جب ہم ہندوستان میں حوزہ علمیہ کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے حوزہ کو اتنی ترقی کیوں نہیں دی جیسی دوسری جگہوں پر ہوئی ہے۔ حوزہ علمیہ کی بقا ہمیشہ علماء اور طالب علموں کی محنت پر منحصر ہے، جیسے امام حسین علیہ السلام کی قربانیوں کو علماء اور طالب علموں نے ہی دنیا بھر میں پہنچایا۔ آج ہمیں اس بات پر توجہ دینی ہوگی کہ ہمارے حوزہ علمیہ کی موجودہ حالت کیا ہے اور اس کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

سوال: آپ کے مطابق ہندوستان میں شیعہ کمیونٹی اور حوزہ علمیہ کے لئے سب سے اہم چیلنج کیا ہے؟

مولانا رضا حیدر زیدی: ہندوستان میں اس وقت کئی چیلنجز ہیں۔ ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علماء اور مبلغین زیادہ تر اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ عوام تک کیسے پہنچیں۔ پہلے مدارس میں اساتذہ صرف تدریس تک محدود تھے، مگر اب الحمدللہ اساتذہ اور علماء ممبر پر بھی آ رہے ہیں اور عوامی سطح پر کام کر رہے ہیں۔ اس سے عوام پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن بعض لوگ اس تبدیلی کو پسند نہیں کرتے اور اساتذہ کو الزام دیتے ہیں، جو کہ ایک افسوسناک حقیقت ہے۔

سوال: میڈیا کے حوالے سے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

مولانا رضا حیدر زیدی: میڈیا کا دور ہے، اور اس وقت ہمارے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہیں، لیکن دشمنوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی جھوٹی اطلاعات کو ہم عالمی سطح پر جواب نہیں دے پاتے۔ ہمارے پاس جو حقیقی علم ہے، وہ اس انداز میں پھیلنا ضروری ہے کہ لوگوں تک پہنچے۔ میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنے پیغامات کو عام کرنا چاہیے۔ علماء کو بھی چاہیے کہ وہ میڈیا کے ساتھ جڑیں اور اپنے پیغامات کو دنیا بھر تک پہنچائیں۔ اگر ہم زمانے کی زبان میں اپنی بات نہیں کریں گے، تو ہمارے پیغامات غیر متعلقہ ہو جائیں گے۔ اس لیے ہمیں اپنی تقاریر میں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہم اپنے پیغامات کو کیسے زیادہ مؤثر طریقے سے پہنچا سکتے ہیں۔

سوال: آپ کے مطابق علماء کو کس طرح کے اقدامات کرنے چاہیے؟

مولانا رضا حیدر زیدی: علماء کو چاہیے کہ وہ اپنی تقاریر اور تقریبات کو اس انداز میں ترتیب دیں کہ وہ نہ صرف اپنی جماعت تک محدود رہیں بلکہ وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچیں۔ اس کے لیے ہمیں عصر حاضر کی زبان، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا تاکہ ہمارا پیغام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔

ملک ہندوستان میں شیعہ کمیونٹی کو اپنے مسائل کے حل کے لیے آگے بڑھنا ہوگا اور میڈیا سمیت دیگر ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنے علم کو دنیا کے ہر کونے تک پہنچانا ہوگا تاکہ ہمارے دشمنوں کے جھوٹ کے مقابلے میں ہمارا سچ نمایاں ہو۔

حوزہ نیوز: ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں اپنا قیمتی وقت عنایت فرمایا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha