حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نئی دہلی/ مُدرسِ قرآن مولانا سید ذیشان حیدر نقوی عثمانپوری طاب ثراہ امام مسجد شیعیان علیؑ ، نئی دہلی کی اچانک وفات پر مختلف اداروں اور معتقدین کی جانب سے تعزیتی جلسوں اور ایصالِ ثواب کا سلسلہ جاری ہے ۔ مرحوم عالم دین کی شُہرت مدرسِ قرآن اور مجسمِ اخلاق کے عنوان سے تھی۔ مولانا نے اپنی پوری زندگی ترجیحاتی بنیاد پر قرآن فہمی یعنی قرآن پڑھنے اور پڑھانے میں بسر کی، وہ کہیں بھی اور کسی بھی عمر کے مسلمان کو قرآن پڑھانے اور قرآنیِ تعلیمات سے آشنا کرانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے۔ مرحوم نے درسِ قرآن کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا تھا ۔
ان حقائق کا اظہار خطیب اسلامی الحاج سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی نے ڈاکٹر مولانا سید محمد مہدی عابدی نوگانوی کے زیر صدارت مسجد شیعیان علیؑ میں منعقدہ تعزیتی جلسہ و مجلسِ عزا میں کیا۔ سید محمد سبطین گڈو نقوی کے زیر اہتمام منعقدہ اس تعزیتی جلسہ میں خطیب اسلامی قمر عباس نے مزید کہا کہ علماء کرام ہمارے لیے پروردگارِ عالم کی خاص عطا اور عظیم نعمت ہے اگر ہم دنیا میں عزت و توقیر اور آخرت میں نجات و بلند مقام چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا رابطہ علماء سے مضبوط رکھنا چاہیے۔ چونکہ علماء ہی احکامات دینی پیغاماتِ معصو مینؑ ہم تک پہونچانے کا واحد وسیلہ ہیں۔ آپ نے آخر تقریر میں حاضرین سے گزارش کی کہ مرحوم عالم دین کو عملی خراج عقیدت پیش کریں اور مرحوم کے ادھورے اور خواہشاتی منصبوں کو مکمل کرانے کی کوشش کریں ۔
اس موقع پر مجلسِ عزا کو خطاب کرتے ہوئے مولانا سید رضی حیدر زیدی پھنڈیروی (خانہ فرھنگ جمہوری اسلامی ایران ) نے کہا کہ علماء اسلام کے مضبوط قلعے اور ملٙت کے لیے انمول ستارے ہیں ۔ ان کا احترام ہم سب پر لازم و واجب ہے ، عالم وہ عظیم شخصیت ہوتا ہے جو شیطان رجیم کی کمر توڑتا ہے اُس کے منصبوں کو خاکستر کرتا ہے۔ شہیدِ اوٙل کے حوالہ دیتے ہوئے مولانا رضی زیدی نے کہا علماء نے قید خانوں کی اذیتوں کو برداشت کیا اپنی جانوں کی قربانی پیش کی لیکن توحید ، احکام دین اور پیغامات معصومینؑ کی تبلیغ کرتے رہے یہ علماء ہی ہیں جو احکاماتِ خدا وندی کو مشکل ترین کتابوں سے نکال کر ہمیں تھالی میں سجا کر دیتے ہیں۔ آج ہم سب غمزدہ ہیں چونکہ ہمارے درمیان سے ایسا عالم دین ( سید ذیشان حیدر نقوی طاب ثراہ عثمانپوری ) اُٹھ گیا جس نے اپنی زندگی میں بہت سے نرم گرم دن دیکھے لیکن کبھی بھی پختہ عقیدے ، مضبوط کردار ، خود اعتمادی اور خود داری پر آنچ نہیں آنے دی ، اور اللہ پر توکُل کرتے ہوئے پوری زندگی قوم وملٙت اور وطن و خانوادے کے نام وقف کردی ۔ ربِ کریم میں بحق حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام مرحوم عالم دین کی دینی، تعلیمی اور تبلیغی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائیں آخرِ مجلس میں خطیب مجلس مولانا سید رضی زیدی نے امام حسینؑ کی شہادت کا دردناک منظر و اسیرانِ کربلا کےمصائب پیش کیے اور حاضرین نے گریہ کرے شہزادئ کونینؑ کو پرسہ پیش کیا۔ مجلس کا آغاز تلاوتِ حدیث کساء اور اختتام زیارتِ مبسوط پر ہوا۔
مجلس میں سوز خوانی آغا حسین مراز فیصل قزلباش دھلوی و ہمنوا نے کی ۔ جبکہ معروف سوز مرثیہ خواں شمس الحسن عارفی ، کوثر مہدی زیدی مظفر نگری ۔ حسن عباس ببے امرہوی ، محمد عباس نوگانوی ، رفیق عالم عابدی لکھنئوی، مرزا شبر علی دہلوی ، شبیر علی بنارسی ، حاجی ظفر علی دہلوی ، حسن منظر حسینی، تعزیہ دار سید آصف علی رضوی ، محفوظ حسین دہلوی ، غضنفر عباس بابو عارفی ، حیدر علی نوگانوی، مقصود حسین زیدی دھلوی۔ اظہر علی دہلوی ، عارف حسین خاں دہلوی، سلطان حسین سانکھنوی ، شاہ حسین عارفی ، وسیم عباس بڑھانوی ، ساجد حسین لکھنئوی کے ساتھ کثیر تعداد میں محبانِ حضرت پیغمبر اکرمؐ اور وارثینِؑ حضرت پیغمبرِ اکرم ؐ نے شرکت کی۔