۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مولانا سید شباب حیدر سرسوی 

حوزہ/ مولانا سید شباب حیدر نقوی ابن سید قمقام الرضا نقوی مرحوم کا شمار وطنِ عزیز سرسی کے علماء و خطباء اور اساتذہ کی اُس فہرست میں ہوتا ہے جنھوں نے انتہائی خاموشی سے طویل عرصہ تک دینی خدمات انجام دی ہیں۔

تحریر: خطیب اسلامی مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی، سرسی-نئی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسیمولانا سید شباب حیدر نقوی ابن سید قمقام الرضا نقوی مرحوم کا شمار وطنِ عزیز سرسی کے علماء و خطباء اور اساتذہ کی اُس فہرست میں ہوتا ہے جنھوں نے انتہائی خاموشی سے طویل عرصہ تک دینی خدمات انجام دی ہیں ان کی ولادت  سرکاری دستاویزات کے مطابق 25 ستمبر سنہ 1961 عیسوی میں سرسی کے ایک دیندار، زمیندار اور عزادار گھرانے میں پیدا ہوئے مولاناِ مرحوم انتہائی بلند اخلاق، ملنسار، منکسر المزاج،متقی و پرہیز گار،  نہایت سادگی پسند اور ایسے شفیق انسان تھے جنکا ظاہر و باطن ایک تھا۔ مولانا اس قدر غیرت دار اور خود دار تھے کہ اس دورِ گرانی میں بھی مختصر تنخواہ پر پوری زندگی  سکون و اطمینان کے ساتھ اہل وعیال اور عزیز و اقارب کی ذمہ داریوں کو پوری دیانتداری کے سے نبھاتے ہوئے گزاری، ایسا نہیں ہے کہ مولانا مرحوم کی ضروریات نہیں تھیں، تھیں اور خوب تھیں مگر ان پر ہمیشہ خوداری کا غلاف پڑا رہا۔ مختصر یوں کہ ایک عالم دین اور مردِ مومن کی تقریباً سبھی صفات مرحوم میں موجود تھیں۔

مولانا کی رسمِ بسم اللہ سرسی  میں ضرور ہوئی لیکن علمی زندگی کا آغاز  ہندوستان کی عظیم اور مشہور درسگاہ جامعہ ناظمیہ لکھنئو سے ہوا جہاں پر آپ  نے ابتدائی دروس سے لیکر جامعہ کی اعلیٰ سند تک کسبِ فیض کیا۔ مولانا نے سنہ1967 عیسوی میں تقریباً 7 سال کی عمر میں اپنی والدہ معظمہ کی خواہش پر دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے  سرسی سے لکھنئو کا  پہلا علمی سفر  مولانا سید عارف علی مرحوم سرسوی (متعلم جامعہ ناظمیہ) کے ہمراہ کیا۔ اس وقت جامعہ ناظمیہ میں آپ کے خالہ ذاد بھائی مولانا سید شمیم حیدر زیدی پھنڈیروی (متعلم جامعہ ناظمیہ) نے مولانا کی پوری راہنمائی کی۔  مولانا شباب حیدر مرحوم نے مدرسہ ناظمیہ کے قیام کے دوران مدرسہ کے جید اور مہربان اساتذہ سے کسب فیض کیا جن میں مولانا سید حمید الحسن تقوی صاحب، مولانا سید ایوب حسین نقوی سرسوی مرحوم ۔ مو لانا سید شہنشاہ حسین مرحوم ۔ مولانا سید محمد شاکر نقوی مرحوم۔ مولانا سید ابن حیدر نقوی مرحوم وغیرہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ مدرسہ ناظمیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد سنہ 1980 عیسوی سے مولانا مرزا محمد عالم  طاب ثراہ کی ایما پر  بحثیت مدرس مدرسہ جامعتہ التبلیغ مصاحب گنج لکھنں منتخب کرلیے گئے اور آپ وظیفہ تدریس کی انجام دہی میں مصروف ہو گئے اور پھر یہی کے ہوکر رہ گئے۔ مولانا نے درس و تدریس کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا اور زندگی کے آخری لمحات تک اس خدمت میں مصروف رہے۔

مولانا نے تقریباً 31 سال مدرسہ جامعتہ التبلیغ  میں درسی و تدرسی خدمات انجام دیں۔ مرحوم ایک آچھے استاد کے ساتھ ساتھ بہترین شاعر بھی تھے لیکن انکا کلام بہت کم منظر عام پر آیا البتہ لکھنئو شہر کی بعضں ماتمی انجمنیں انکا کلام پڑھتی ہیں۔  آپ کے زمانہ طالب علمی کے ہمعصر و ہمدرس علماء فضلاء کہ جن سے آپکے تعلقات بھی بہت مضبوط تھے ان کے اسماء گرامی یوں ہیں: مولانا سید اطہر عباس رضوی مرحوم  امام ِ جمعہ کلکتہ، مولانا سید وصی حیدر حسینی صاحب مرحوم مُدرس حوضِ علمیہ امام حسینؑ مظفر نگر، مولانا سید محمد نظیر عابدی صاحب لکھنئو، مولانا اختر حسین رضوی کراروی، مولانا رئیس حسین بنگلور وغیرہ۔  مولانا نے اپنی زندگی بہت سے شاگردوں کو زیور علم و معارف سے آراستہ کیا جن کی فہرست  اتنی طویل ہے کہ اگر ان سب کے اسماء ذکر کیے جائیں تو چند صفحات درکار ہیں۔ مولانا کے بہت سے شاگر ایران، عراق اور شام سے فارغ ہو  ملک و بیرون ملک میں تدریس و تبلیغ دین مبین اسلام میں مصروف ہیں اور بہت سے شاگرد آج بھی وہاں حصول علم میں مصروف ہیں۔

ہم یہاں پر چند شاگردوں کے اسماء گرامی تحریر کر رہے ہیں: محقق و مدقق مولانا سید رضی حیدر زیدی پھنڈیروی خانہ فرہنگ، جمہور اسلامی ایران، نئی دہلی، مولانا سید علی گوہر زیدی مظفرنگری مرحوم امام جمعہ آگرہ، مولانا سید ضامن حسین جعفری دفتر مرجع تقلید آیت اللہ بشیر نجفی حفظ اللہ نجف، مولانا محمد ابراہیم استاد جامع التبلیغ  لکھنئو، مولانا قمر عباس خاں سلطانپوری استاد جامع التبلیغ  لکھنئو، مولانا محمد کاظم جلالپوری، خطیب و شاعر اہلبیت مولاناسید مناظر حسین حسنی فتحپوری، مولانا ثمر عباس سرسوی اور مولانا سید اقرار رضا سُہاوا، رامپور مقییم سرسی و غیرہ۔ 

مولانا جب وطن تشریف لا تے تو یہاں بھی خدمتِ دین میں مصروف رہتے  مجالس کو خطاب کرتے اور مجالس میں شرکت بھی کرتے مجالس میں اسلامی تاریخ اور واقعات کو منفرد انداز میں بیان فرماتے جو پرکشش اور نہایت دلچسپ ہوتا تھا۔ احقر راقم السطور کو یہ شرف حاصل ہے کہ جہاں انکی مجالس سنکر استفادہ کیا ہے وہی اپنی مجالس سنا کر مرحوم سے داد و تحسین بھی حاصل کی ہے مولانا جب بھی سرسی تشریف لاتے تو راقم السطور کے والد محترم حجتہ الاسلام مولانا سید نظائر حسین نقوی سرسوی طاب ثراہ سے ضرور ملاقات  کرتے اور پھر بہت دیر تک علمی موضوعات اور قومی مسائل پر گفتگو  ہوتی۔ مولانا مرحوم ہماری ہمشیرہ مرحومہ اور معروف و معتبر خطیبہ اہلیبتؑ الحاجہ سیدہ درّ زہرا نقوی مرحومہ مدیر مدرسہ و لائبریری خدیجہ الکبریٰ سرسی کا بھی بہت احترام کرتے اور سرسی آنے پر اکثر اپنی بڑی ہمشیرہ ذاکرہ اہلیبتؑ رضیہ باجی زوجہ مولانا سید شمیم حیدر پھنڈیروی مرحوم کے ہمراہ ملاقات بھی کرتے۔ خطیبہ مرحومہ جب بھی مجالس یا کسی دوسرے سبب  لکھنئو جاتیں تو بطور خاص مولانا کے دولت کدے جاتیں۔ 

 مگر افسوس یہ علم و عمل کا آفتاب 20 اپریل سنہ 2021 کو مختصر علالت کے بعد لکھنئو میں غروب ہو گیا۔ جیسے ہی یہ غمناک خبر عام  ہوئی مولانا کی لکھنئو اور سرسی کی رہائشگاہوں پر سوگواروں اور تعزیت پیش کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا سوشل میڈیا پر بھی ملک و بیرون ملک سے تعزیت پیش کرنے کا سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ 

مرحوم کی وصیت کے مطابق جنازہ سرسی لایا گیا اور 21 اپریل کو امام بارگاہ کلاں سرسی میں سپرد خاک کیاگیا۔  آپ کی قبر کے نزدیک مولانا سید نظائر حسین نقوی ، مولانا سید سخی احمد نقوی اور مولانا سید حسین الزماں نقوی کی قبور ہیں۔ مولانا کے جنازہ میں عالمی وبا کورونا کے باوجود جب ہر سُو خوف و دہشت کا ماحول تھا سینکڑوں عقیدت مندوں  نے نم آنکھوں کے ساتھ شرکت کی۔  مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ 2 بیٹے- سید لبیب حیدر نقوی (سنی) اور سید عابس حیدر نقوی اور 2  بیٹییاں چھوڑی ہیں۔ ہماری دعا ہے پروردگار مرحوم عالمِ دین کے درجات بلند فرمائے علماء و شہداء میں محشور فرمائے پسماندگان ، برادرانِ وطن، اساتذہ و طلاب مدرسہ جامعة التبلیغ لکھنئو کو صبر جمیل عطا فرماے۔ مولانا کی رحلت ایک عظیم علمی اور تدریسی خسارہ  ہے جس کا جبران نہیں ہوسکتا۔

یہ چند ادھوری اور  بے ربطہ سطریں مولاناِ عزیز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور آپکی چند خدمات کو آئندہ نسلوں کے لیے امانت کے طور پر محفوظ کرنے کی بساط بھر کوششں ہے مجھے احساس ہے کہ میں اپنی لا علمی کی بنا پر مولانا کی خدمات کا بڑاحصّہ ضبط تحریر میں نا لا سکا۔ جس کے لیے وارثین اور عقیدتمندوں سے معذرت خواہ ہوں۔ ماشاء اللہ مولاناِ مرحوم کہ چاہنے والوں میں میدانِ قلم کے مجاہدین کی فہرست بھی طویل ہے اور یہ کمی جلد دور ہوجائے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .