۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مولانا سید علی تقوی

حوزہ/ مولانا کے خطباتِ جمعہ ، مجالسِ حضرتِ سید الشہداؑ ، عیدین ، یومِ حج اور یومِ عاشورہ کے پیغامات دینی و سماجی جلسوں میں صدارتی کلمات کے خوبصورت نتائج و اثرات نہ صرف وقتی طور پر بلکہ سامعین کی عملی زندگی پر بھی دور تک دیکھائی دیتے۔

تحریر: سید قمر عباس قنبر نقوی، نئی دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی آج سے چار سال قبل 12 دسمبر 2017 عیسوی کی تاریخ اِس اعتبار سے انتہائی افسوسناک و کربناک ثابت ہوئی کہ راجدھانی دہلی کی شیعہ جامع مسجد میں نصف صدی سے بھی ذیادہ امام جمعہ کی پُر وقار انداذ میں خدمت انجام دینے والے عالم با عمل حجتہ السلام و المسلمین الحاج سید علی تقوی وکیل رہبر انقلاب اسلامی حضرت ولی فقیہ آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای حفظ اللہ نے رحلت فرمائی۔ آپ کی رحلت کی خبر پھیلتے ہی ملّتِ اسلامیہ خصوصاً ملّتِ جعفریہ دہلی میں غم و افسوس کی ایک لہر دوڑ گئی ہر فرد کا رُخ شیعہ جامع مسجد کی سمت تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے حدودِ مسجد میں علماء و خطباء ، آئمہ مساجد ، دانشورانِ ملّت ، طلاب دینیہ ، مصلیانِ مسجد اور سیاسی و سماجی خدمت گزاروں کا اُداس و غمگین چہروں کے ساتھ ایک جمِ غفیر لگ گیا تھا دوسری طرف تعزیتی پیغامات ، جلسوں اور ایصال ثواب کا نہ تھمنے والا سلسلہ جاری تھا اور یہ منظر کوئی تعجب کی بات نہ تھا چونکہ سرکارِ تقویؒ کی رحلت سے صرف ایک خانودہ عمزادہ نہیں ہوا بلکہ پوری ملّتِ جعفریہ خصوصاً اہلِ دہلی ایک مخلص قائد ، بے لوث مبلغ ، سچّے ہمدرد اور نڈر مجاہد سے محروم ہو گئی تھی ۔
مولانا مرحوم نے جو کہ مجلسِ علماء ہند کے قومی نائب بھی تھے ہندوستان میں حصولِ تعلیم کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کی غرض سے نجفِ اشرف (عراق) کا رخ کیا اور وہاں اُس دور کے جید علماء کرام اور آیات عظام کے درس سے فیضیاب ہوئے اور اپنی سعی و کوشش اور جدوجہد سے مختصر قیام کے باوجود علم کی اعلیٰ منزلوں کو طے کیا- نجف اشرف سے واپسی پر دینِ مبین اور ملت اسلامیہ کی خدمت کی غرض شیعہ جامع مسجد دہلی میں تقریباً 60 سال کے طویل عرصہ تک امام و خطیب کی خدمات انجام دیں ہیں ۔ یہ دینی قحط سالی کا دور تھا، ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ مومنین و مسلمین معاشی کمزوری اور بدحالی کا شکار تھے۔ مولانا مرحوم دہلی کی پرانی اور نو آباد بستیوں میں ڈی ٹی سی کی بسوں ، شیرنگ آٹو اور سائیکل رکشہ سے جاتے اور تبلیغ دین اور ترویج عزا کے امور انجام دیتے۔ مرحوم عالم دین انتہائی مضبوط ولایتی فکر رکھنے والے خطیب کے ساتھ شاعر اہلیبتؑ ، صاحب قلم اور طبیب بھی تھے مگر قومی مسائل کے حل اور محراب و منبر کی مشغولیات کے باعث اِن اُمور پر ذیادہ توجہ نہ دے سکے۔ مولانا کے خطباتِ جمعہ ، مجالسِ حضرتِ سید الشہداؑ ، عیدین ، یومِ حج اور یومِ عاشورہ کے پیغامات دینی و سماجی جلسوں میں صدارتی کلمات کے خوبصورت نتائج و اثرات نہ صرف وقتی طور پر بلکہ سامعین کی عملی زندگی پر بھی دور تک دیکھائی دیتے۔
آل انڈیا شیعہ پرسنل بورڈ کے سینئر نائب صدر مولانا تقویؒ کی طبعیت میں صاحبانِ علم کی عزت و احترام ، طلاب دینیہ و عصریہ کے ساتھ مصلحانہ اور دوستانہ رویہ ،شہر کی انجمنوں اور اداروں کو ہمدردانہ مشورہ اور حوصلہ افزائی ، ضرورت مندوں اور طالب علموں کی ممکنہ مدد ، بین المذاہب خصوصاً
مسلمانوں کے مختلف مسالک سے وابستہ افراد میں اتحاد قائم کرانا جیسی بہت سی خوبیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئیں تھیں۔ اسی بنا پر پورے ملک خصوصاً راجدھانی دہلی میں تمام مذاہب و مسالک کے لوگوں میں آپ غیر معمولی قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ شہر کا کوئی قابلِ ذکر اصلاحی یا تبلیغی جلسہ ایسا نہ ہوتا جس میں آپ کی شرکت لازمی نہ سمجھی جاتی ہو ۔ آ پ ان مواقع پر اپنی مخصوص محاورتی طرز گفتگو سے مکتبِ اہلیبتؑ کی فکر دیگر مذاہب تک پہنچانے کی کوشش کرتے - شاہی امام مولانا سید عبد اللہ بخاری مرحوم ، ڈاکٹر مفتی محمد مکرم احمد شاہی امام مسجد فتحپوری ، مفسر قرآن اخلاق حسین قاسمی مرحوم اور مولانا جمیل الیاسی مرحوم صدر آئمہ مساجد کونسل جیسے معتبر علماء اہلِ سنت آپ کے اخلاق و کردار سے بہت متاثر تھے اور ہر اہم موقع پر آپ سے مشورہ کرتے ۔ مولانا مرحوم شاہ بانو کیس اور بابری مسجد کی بازیابی اور تعمیر نو کے لیے آپ ہر تحریک میں علماء اہلسنت اور اکابرینِ ملّت کے شانہ بہ شانہ رہے اور بابری مسجد کی افسوسناک شہادت کے بعد آپ نے سب سے پہلے مختلف مسالک کے علماء و دانشوران کے ہمراہ صدر جمہوریہ عزت ماٙب ڈاکٹر شنکر دیال شرما سے ملاقات کرکے سخت احتجاج درج کرایا اِس موقع پر بھی راقم السطور مولانا کے ہمراہ موجود تھا۔
مولانا مرحوم اوقاف کے تحفظ کے لیے ہمیشہ بہت فکر مند رہتے۔ خطبہ جمعہ میں اکثر اوقاف کے غلط استعمال اور اُس پر نا جائز قبضہ کرنے والوں کو اِس کی سزا اور عذاب سے آگاہ فرماتے۔ اوقاف کا صحیح استعمال ، اِس کا تحفظ اور ناجائز قبضوں کے خلاف آپ نے پچاسوں جلسے اور مینٹگیں کیں بیسیوں مرتبہ مرکزی وزرا ، گورنر دہلی اور وزیر اعلیٰ دہلی سے ملاقتیں کیں جنکے حوصلہ افزا نتائج بھی بر آمد ہوئے اور یہ بات پوری دیانتداری اور اعتماد سے کہیں جائے گی کہ پورے ملک میں تحفظ اوقاف کی کوئی بھی تحریک ایسی نہ ملے گی جسکا سِرا مولانا تقویؒ کی تحریک سے نہ جڑا ہو، آج دہلی میں تحفظِ اوقاف کے سلسلے میں جو بیداری پائی جاتی ہے وہ بھی مولانا مرحوم کی کوششوں کا خوبصورت نتیجہ ہے ۔ مولانا تقوی مرحوم نے اپنی پوری ذندگی دین اسلام اور مکتبِ اہلیبتؑ کی تعلیم و تبلیغ اور جدوجہد میں بسر کی لکھنئو میں عزاداری حضرت سید الشہداؑ جاری پابندی کے خاتمے کے لیے آقائے شریعت مولانا سید کلب عابد طاب ثراہ ، شاہی امام مولانا سید عبد اللہ بخاری طاب ثراہ اور آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد صاحب قبلہ کے ساتھ دہلی سے لکھنئو تک کامیاب تحریک چلائی۔ پڑوسی دشمن ملک میں مہاجرین اور ملّت جعفریہ پر ہونے والے ہر ظلم کے خلاف خطبہ جمعہ سے لیکر مقامِ احتجاج جنتر منتر اور اقوام متحدہ کے دفتر تک ظلم کے خلاف سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کرنے والی شخصیت آپ ہی کی تھی۔ *عراق میں مقامات عتبات عالیہ کے تحفظ اور مرجع تقلید آیت اللہ خوئیؒ کو عراق کے ظالم صدر صدام کے مظالم سے نجات دلانے کے لیے مولانا سید محمد موسوی مدظلہ و دیگر علماء و دانشوران کے ہمراہ انڈیا گیٹ پر کُل ہند ریلی اور پھر 100 دن سے زیادہ جاری رہنے والے مظاہرے کی پورے عالمانہ وقار کے ساتھ قیادت کی۔ آپ کی ذات تھی جو انقلاب اسلامی ایران کے خلاف دشمنوں کے جھوٹے اور غلیظ پروپیگنڈے کا ہر سطح پر جواب دینے میں ہمیشہ پہل کرتے۔ مختصر یوں تحریر کیا جاسکتا ہے سرکارِ تقویؒ اپنی ذات میں ایک مکمل تحریک اور ادارہ تھے۔ خدا کے لطف وکرم سے مرحوم عالم دین کا دینی اور ملی خدمت کا یہ جذبہ اُنکی نسل میں بھی منتقل ہوا ہے آپ کے فرزندے اکبر حجتہ السلام و المسلمین الحاج سید محمد علی محسن تقوی مدظلہ شیعہ جامع مسجد میں امام جمعہ اور جامعہ شہیدؒ میں پرنسپل کے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ قومی خدمات میں مشغول ہیں آپ کے فرزند اصغر نیر علی تقوی انجمن حیدری (رجسٹرڈ) کے صدر کے منتخب صدر ہیں اور تحریک تحفظ اوقاف میں ایک مضبوط ستون کی طرح خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مولانا مرحوم کی دو خواہشیں اُن کی زندگی میں پوری نہ ہو سکیں اوّل یہ کہ وہ قوی خدمات کے حوالے سے ایک ایسی تنظیم چاہتے تھے جسمیں دہلی کے ہر کونے میں رہنے والے شیعہ کی نمائندگی ہو ۔ دوئم دہلی میں ایک شیعہ قبرستان ہو۔ خدا وندعالم مرحوم کے ورثہ، معتقدین ، اداروں کے ذمہ داروں اور مخیر مومین کو مولانا مرحوم کی ان خواہشات کو جلد سے جلد پورا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
ہائے یہ عظیم شخصیت اب ہمارے کے درمیان نہیں ہے 12 دسمبر 2017 کو انتقال فرما کر بفضل رب العزت حضرات معصومین علیہم السلام کے جوار میں پہنچ گئے۔ نماز جنازہ ہندوستان میں رہبر انقلاب اسلامی کے نمائندے آقائے مہدی مہدوی پور دام ظلہ العالیٰ نے ادا کرائی اور وصیت کے مطابق مزارِ حضرت شہید رابعؒ آگرہ میں اپنے والد شیعہ جامع مسجد دہلی کے امام اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے ایک مضبوط شخصیت مولانا سید صغیر حسن تقویؒ کی قبر کے نزدیک آلودہ لحد ہوئے۔ پروردگار مولانا مرحوم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور جنت الفردوس کی بہترین نعمتوں سے نوازے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .