۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
دیدار

حوزہ/ یونیورسٹی برائے ادیان و مذاہب کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے کہا: ادیان و مذاہب یونیورسٹی میں 85 فیصد طلباء غیر ایرانی ہیں،یہ یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں تمام ادیان و مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور اس یونیورسٹی میں علم و دانش سے دلچسپی رکھنے والے طلباء اپنے پسندیدہ شعبے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم میں جمہوریہ ترکی کے سفارتخانے کے کونسلر برائے مذہبی امور مجید جان کی یونیورسٹی برائے ادیان و مذاہب کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب سے ملاقات اور دونوں ممالک کے تعلیمی اداروں میں مزید تعاون پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق،حجۃ الاسلام والمسلمین سید ابوالحسن نواب نے مجید جان اور ان کے ہمراہ آنے والے وفد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ترکی اسلامی دنیا کا ایک اہم اور بااثر ملک ہے اور ہمیں فخر ہے کہ اس ملک کے طلباء نے حصول علم کے لئے ادیان و مذاہب یونیورسٹی کا انتخاب کیا ہے۔

یونیورسٹی برائے ادیان و مذاہب کے سربراہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس یونیورسٹی میں 35 ممالک کے طلباء زیر تعلیم ہیں۔مزید کہا کہ ادیان و مذاہب یونیورسٹی میں 85 فیصد طلباء غیر ایرانی ہیں،یہ یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جہاں تمام ادیان و مذاہب کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے اور اس یونیورسٹی میں علم و دانش سے دلچسپی رکھنے والے طلباء اپنے پسندیدہ شعبے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ ادیان و مذاہب یونیورسٹی میں صرف ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کے لئے طلباء کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ مزید کہا کہ ہمارے کچھ پروفیسر غیر ملکی جیسے ترکی،عراق،ہندوستان وغیرہ سے تعلق رکھنے والے ہیں اور اس یونیورسٹی کی اہم خوبی یہ ہے کہ یہاں پر مختلف ادیان و مذاہب کے پروفیسروں کو ان کے متعلقہ ادیان و مذاہب کی تدریس کے لئے مدعو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ملاقات کے اختتام پر،جمہوریہ ترکی کے سفارتکار نے ادیان و مذاہب یونیورسٹی کے سربراہ سے ملاقات پر مسرت کا اظہار اور اس یونیورسٹی کے قیام پر ان کا شکریہ ادا کیا اور بین المذاہب مکالمے کی اہمیت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ترکی کے تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں اور ادیان و مذاہب یونیورسٹی قم ایران کے مابین باہمی تعاون بڑھانے کی یقین دہانی کرائی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .