حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر امیرعبداللہیان سے ملاقات میں کہا کہ آج یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ مغربی ممالک اپنی خارجہ پالیسیوں میں صرف اپنے مفادات کے حصول کے لئے ہی کوشاں تھے اور ان کے انسانی حقوق کے دعوے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
انہوں نے خطے کے بعض ممالک کے ساتھ امریکہ کی دوغلی پالیسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ خطے کے بعض ممالک کے ساتھ امریکی سلوک، جہاں اب تک نہ کوئی انتخابات ہوئے اور نہ وہاں پر کوئی پارلیمنٹ ہے،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی جمہوریت کا دعویٰ صرف ایک نعرے کی حد تک ہے۔
آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے کہا کہ امریکہ کا کئی سالوں تک ہمارے ملک کے وسائل پر تسلط تھا اور اب جب کہ اس کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے،تو وہ دوبارہ خطے اور خطے کے ممالک کا دل اسلامی جمہوریہ ایران پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی مکارم نے مذاکراتی ٹیم کی ہوشیاری کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے مزید کہا کہ جو چیز ملک کی عزت،وقار اور طاقت کا سبب بنتی ہے اسے مذاکرات میں تلاش کرنا چاہئے۔
انہوں نے اندرونی معاملات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کے ساتھ کسی بھی حالت میں مذاکرات اور گفت و شنید نہیں کرنی چاہئے جب کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا کے ساتھ مذاکرات اور تعامل کے لئے کوئی حد مقرر ہونی چاہئے،لہذا ان دونوں گروہوں کو قائل کرنا ضروری ہے اور جو صحیح طریقۂ کار ہے اسی کے مطابق آگے بڑھنا ہوگا۔
آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے مختلف امور میں ترقی اور بین الاقوامی مذاکرات میں اس ملک کے تینوں سربراہان صدر،اسپیکر اور چیف جسٹس کے درمیان ہم آہنگی کو اہم قرار دیا اور خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات میں ماہرین تعلیم اور حوزہ علمیہ کے اساتذہ کی آراء سے استفادہ کرنے پر زور دیا۔
مرجع تقلید نے ملاقات کے آخر میں،اس ملک کی یونیورسٹیوں میں مغربی بیہودہ ثقافت کے اثرات سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف حکام کو خبردار کیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس ملاقات کے آغاز میں ایرانی وزیر خارجہ ڈاکٹر امیر عبداللہیان نے وزارت خارجہ کی جانب سے کئے جانے والے مذاکرات اور سرگرمیوں کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے انتہا پسندی اور تکفیری روش کے خلاف عالمی کانفرنس کے انعقاد میں آیۃ اللہ مکارم کے اقدام اور خطے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے تاثرات کو سراہتے ہوئے خطے کے حالات اور پڑوسی ممالک میں تکفیری گروہوں کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دوسری عالمی کانفرنس کے انعقاد کی درخواست کی۔