۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
وزیر امورخارجه و آیت الله جوادی آملی

حوزہ/حضرت آیۃ اللہ العظمی جوادی آملی نے وزیر خارجہ سے ملاقات میں کہا کہ دنیا کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک عالمی فکر کی ضرورت ہے!ہم دنیا سے الگ نہیں ہیں،ہمیں بہت ہی ذہانت اور بصیرت کے ساتھ دنیا سے مذاکرات اور ان سے مصافحہ کرنا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے آیۃ اللہ العظمی جوادی آملی سے ان کے گھر پر ملاقات اور مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

حضرت آیۃ اللہ جوادی آملی نے اس ملاقات میں کہا کہ دنیا کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک عالمی فکر کی ضرورت ہے!ہم دنیا سے الگ نہیں ہیں،ہمیں بہت ہی ذہانت اور بصیرت کے ساتھ دنیا سے مذاکرات اور ان سے مصافحہ کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی نظام میں کسی پر بھی بھروسہ نہیں کیا جاسکتا،لیکن اس کے باوجود دوسرے ممالک کے ساتھ مذاکرات اور تبادلہ کرنے کی سب کو ضرورت ہے، لہذا،دنیا کے ساتھ مذاکرات بین الاقوامی سطح پر ایک اہم سائنسی،قانونی اور سیاسی کام ہے۔

آیۃ اللہ جوادی آملی نے کہا کہ دنیا کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک بالغ بین الاقوامی سیاسی سمجھ بوجھ اور درک و فہم رکھنے والے کی ضرورت ہے۔معاہدوں کو اس طرح سے لکھا جانا چاہئے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت ان معاہدوں سے دستبردار نہ ہو سکے اور اپنے عہد و پیماں کو پورا کر سکے،اگر کوئی ملک یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبردار ہونے میں کامیاب ہو گیا تو اس کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ بیہودہ لکھا گیا تھا!اس کا مطلب یہ ہے کہ معاہدے میں یہ شرط نہیں رکھی گئی ہے کہ اگر فریقین میں سے کوئی بھی یکطرفہ طور پر معاہدے سے دستبردار ہو جائے اور اسے ختم کر دے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے؟اس کا مطلب ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں کو نہیں دیکھا گیا ہے۔

آیۃ اللہ العظمی آملی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مصر کے گورنر مالک اشتر کے نام اپنے خط میں حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے لکھا کہ عوام دین کے ستون ہیں،یہ بات رحم و کرم کی بنیاد پر نہیں کہی گئی ہے،بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ایسا کیا خطرہ تھا کہ لوگوں نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دفاع نہ کیا ہو؟عوام نے کہاں ایثار و قربانی سے دریغ کیا ہے؟اسلامی جمہوریہ ایران کے عوام نے خون بہا کر اس ملک کو بچایا ہے،لہٰذا،ہمیں عوام پر اور اندرونی معاملات پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے اور مقامی مفکرین اور ماہرین سے مشورہ کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے جوہری مذاکراتی ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ بین الاقوامی نظام کا منشور حق و انصاف پر مبنی نہیں!وہ بنیادی طور پر ان تصورات کو قبول نہیں کرتے،جس چیز کو وہ قبول کرتے ہیں اور ہمیں اس کے مطابق ان کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہئیں وہ ایک استدلالی عقل ہے،ہمارے فریق کو یہ جان لینا چاہئے کہ جوہری مذاکرات سے یکطرفہ دستبرداری بین الاقوامی سلامتی کے لئے خطرہ ہے،جب تک کہ ہمارے معاہدے کو بین الاقوامی سلامتی سے منسلک نہ کیا جائے اس کی ضمانت نہیں دی جا سکتی،جوہری معاہدے کو ایک محترم اور باہمی عہد و پیماں پر مبنی ایک معاہدہ ہونا چاہئے اور اس میں بین الاقوامی قانون کے تمام پہلوؤں کو شامل کیا جانا چاہئے۔ہم بین الاقوامی آداب و رسوم کا احترام کرتے ہیں،ہم دنیا سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں،لیکن ہاتھ ملانے کے بعد ہم اپنی انگلیوں کو بھی گنتے ہیں!

ملاقات کے آغاز میں،ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے خارجہ امور کے بارے میں اب تک کی سرگرمیوں،خاص طور پر جوہری مذاکرات اور ایران کے خلاف جابرانہ پابندیوں کے اٹھائے جانے کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .