حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حضرت آیت اللہ جوادی آملی نے اپنے درسِ خارج فقہ میں اپنے درس کا کچھ حصہ اخلاقی مسائل کے بیان کے لئے مختص کیا اور صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں کے فراز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: عام طور پر دعاؤں کا اصل محور استغفار اور طلبِ مغفرت وغیرہ ہی کرنا ہوتی ہے لیکن صحیفۂ سجادیہ ایک علمی اور درسی کتاب ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جب وہ استغفار وغیرہ کرتا ہے تو اس کا راستہ اور طریقہ بتاتا ہے، دلیل اور حقائق بیان کرتا ہے۔
انہوں نے کہا: مثال کے طور پر اب ہمارے انسان کا آخری خاصہ "ناطق" (بولنے والا) ہے۔ "جوہر، جسم، نام، حساس، اپنے ارادہ کے ساتھ حرکت کرنے والا، ناطق" ہم اسے انسان کا آخری خاصہ سمجھتے ہیں لیکن امام سجاد علیہ السلام کی نورانی دعا میں "ناطق" انسان کا آخری خاصہ نہیں ہے بلکہ "حامد" آخری خاصہ ہے؛ یعنی اگر انسان ناطق ہو لیکن خدا کی حمد نہ کرے تو وہ انسان نہیں! یقیناً امام علیہ السلام کسی کی توہین اور برائی کرنا نہیں چاہتے بلکہ وہ فرما رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ نہ جانتا ہو کہ یہ نعمت کس کی طرف سے ہے اور وہ اس نعمت کو صحیح طریقے سے استعمال نہیں کرتا اور زبان سے "الحمد للہ رب العالمین" نہیں کہتا، تو ہاں! وہ "حیوان ناطق (بولنے والا جانور) تو ہے لیکن انسان نہیں ہے کیونکہ انسان کا آخری خاصہ "حامد اور حمید یعنی حمد و ثنا کرنے والا ہونا ہے۔
اس مرجع تقلید نے کہا: صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا میں جو کہ "دعاء حمد" ہے، امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر ایک امت یا معاشرہ خدا کی نعمتوں سے تو استفادہ کرے لیکن خدا کی حمد و ثنا نہ کرے تو «وَ لَوْ کَانُوا کَذَلِکَ لَخَرَجُوا مِنْ حُدُودِ الْإِنْسَانِیَّةِ إِلَی حَدِّ الْبَهِیمِیَّةِ فَکَانُوا کَمَا وَصَفَ فِی مُحْکَمِ کِتَابِهِ: ﴿إِنْ هُمْ إِلَّا کَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِیلًا﴾»؛ یہ کوئی نام نہاد دعا نہیں ہے بلکہ یہ عقلی دعا ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ "اگر کوئی اگر کوئی حیوان ناطق ہوتے ہوئے خدا کی نعمتوں سے استفادہ کرے لیکن نعمتوں سے استفادہ کرتے وقت زبان سے "الحمد للہ رب العالمین" نہ کہے تو یعنی وہ معتقد نہیں ہے کہ یہ نعمت کہاں سے آئی ہے اور اسے کیسے استعمال کرے پس وہ "انسان نہیں" ہے۔ وہ "ناطق" تو ہے، لیکن انسان نہیں!
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: آپ دیکھتے ہیں کہ یہ دعا دوسری دعاؤں سے مختلف ہے۔ یہی حکمت ہے، یہی علم ہے، یہی اخلاق ہے، یہی فقہ ہے، یہی قانون و حقوق ہے، اسی لیے اس باعظمت کتاب سے انس رکھنا سب کے لیے ضروری ہیں۔