۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
تصاویر/ دیدار اعضای خانه حکمت اصفهان با آیت الله العظمی جوادی آملی

حوزہ/حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے شعبان المعظم کے با برکت مہینے کو مؤمنین کے اخلاقی سال کا آخری  مہینہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ معمول کی زندگی میں ہر آدمی اپنے لئے ایک مخصوص سال قرار دیتا ہے، کسان اور زمینداروں کے سال کا آغاز موسم خزاں سے ہوتا ہے،(جس میں وہ خمس و زکات کا حساب و کتاب کرتے ہیں) بعض لوگوں کے سال کا آغاز فروردین( ہجری شمسی سال کا پہلا مہینہ) سے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی اخلاقی تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے سال کا آغاز ماہ مبارک رمضان سے ہوتا ہے۔

حوزہ نیوز  ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت اللہ العظمی جوادی آملی نے شعبان المعظم کے با برکت مہینے کو مؤمنین کے اخلاقی سال کا آخری  مہینہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ معمول کی زندگی میں ہر آدمی اپنے لئے ایک مخصوص سال قرار دیتا ہے، کسان اور زمینداروں کے سال کا آغاز موسم خزاں سے ہوتا ہے،(جس میں وہ خمس و زکات کا حساب و کتاب کرتے ہیں) بعض لوگوں کے سال کا آغاز فروردین( ہجری شمسی سال کا پہلا مہینہ) سے ہوتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنی اخلاقی تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے سال کا آغاز ماہ مبارک رمضان سے ہوتا ہے۔ لہذا ماہ شعبان المعظم ان کے لیے سال کا آخری مہینہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ سکول اور کالج کے طلبا اپنے تعلیمی سال کے آخر میں امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں کتنی جد وجہد اور کوشش کرتے ہیں، زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے اور ذہنی آمادگی میں لگے رہتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ اپنے لیے اخلاقی تربیت کا سال قرار دیتے ہیں ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے سال کے آخری مہینے میں اگر واجب الادا قرض وغیرہ گردن پر ہے تو اسے ادا کرتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کو اداکرتے ہیں، اپنے گناہوں سے توبہ و تائب ہوجاتے ہیں، متروک واجب کو بجا لاتے ہیں،  حرام کاموں پر توبہ کرتے ہیں اور ہر قسم کے حق حقوق کو ادا کرتے ہیں تاکہ منافع بخش چیزوں سے سال کا آغاز کریں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب شعبان کا مہینہ ہے ،  اسے سال کا اختتام ہوتا ہے۔ گیارہ مہینے گزر چکے ہیں۔یہ سال کا آخری مہینہ ہے، اگر آپ کچھ پینا چاہتے ہیں تو اسے پی لیں۔ ورنہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ جو آئے گا ، وہ کام کرنے کا مہینہ ہے ، انعام لینے کا مہینہ نہیں ہے۔ آپ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے کے بہترین دن اور رات، شب عید الفطر ، جو  کہ عید  کی رات ہے ، اور عید کا دن ، جو کہ عید الفطر ہے ، آپ کو بعنوان لیلة الجوائز یا یوم الجوائز کچھ دیا جائے گا ، بصورت دیگر ، رمضان المبارک کا مہینہ کام کا مہینہ ہے ، یہ جانےوالا مہینہ ہے ، انعام لینے کا مہینہ نہیں ہے۔یہ شعبان کا مہینہ ہے ، اگر آپ کو شعبان کا مہینہ میسر نہیں ہوتا  تو ، آپ کو رمضان کا مقدس مہینہ بھی  نہیں ملے گا ، آپ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کو حاصل کرنے کےلیے ڈورے تاکہ وہ عید الفطر کی رات آپ کو کچھ دے سکے۔ یہ کام کا مہینہ ہے ،  البتہ انسان کام کرنے اور عبادت کرنے سے لطف اندوز ہوتا ہے ، لیکن ملاقات کی لذت اور کچھ پانے کی لذت کچھ اور ہے۔اگر عید کی رات آجائے ،  عید الفطر کا دن ہو ، پھر وہ کہتے ہیں:

یہ عید کا دن ہے اور آج میں تیس دن اور ساغر کا نتیجہ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں.(فارسی شعر کا مفہومی ترجمہ)

عید کا دن، انعام کا دن  ہے جو کسی شخص کو دیا جاتا ہے ، لہذا اگر ہم اس درجے پر نہیں پہنچ پائیں تو ہمیں کم سے کم اس مہینے کا جائزہ لینا چاہئے ، جو سال ختم ہونے والا ہو ، اس میں ہمیں دین کو سمجھنے، حقوق اللہ اور حقوق الناس ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے  اپنے  نقائص،گناہوں اور لغزشوں  کی اصلاح کرنی چاہیے . 

انہوں نے اپنی گفتگو  کے ایک حصے میں ، مناجات شعبانیہ اور صلوات مخصوصہ کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اگلا نکتہ یہ ہے کہ ایک طرف مناجات شعبانیہ ہے  اور دوسری طرف صلوات نورانی امام سجاد علیہ السلام ہے جو کہ زوال کے وقت پڑھی جاتی ہے البتہ مساجد میں نمازوں کے درمیان پڑھی جاتی ہے  ، یہ سب ہمیں اس راہ کی نشاندہی کرتا ہے کہ کیسے سال کے آخر کا پتہ لگائے راہ بہت ہی وسیع ہے ، یعنی اگر کوئی جانا چاہتا ہے، تو کوئی رکاوٹ نہیں ، کوئی خلل نہیں ہے ، جس رفتار سے جانا چاہیے جاسکتا ہے، یعنی سبقت لے حاصل کر سکتاہے،اس لیے کہ آپ کے پاس بلندی کی طرف جانے والی ایک ایسی سڑک ہے آپ کسی سے ٹکرائے بغیر تیزی سے بلندیوں کو چھو سکتے ہیں.
(سارعوا) یعنی تیزی پکڑ لو، جلدی کرو.  کس لیے ؟؟ آگے فرماتا ہے:(الی مغفرة من ربكم و جنة عرضها السماوات والارض) اپنے پروردگار کی بخششوں اور جنت کی طرف ......) نماز کے درمیان تلاوت کی جانے والی ان با برکت دعاؤں میں ، ہم خدا کی ذات اقدس سے مانگتے ہیں کہ خدایا! اس مہینے میں رحمت ہے۔ اس کی رات ، اس کا دن ، اسکی صبح ، طلوع کے مابین بے حساب رحمتیں ہیں ، کوئی لمحہ بھی آپ کے رحم و کرم سے خالی نہیں ہے ، بے شک خاص رحمت، جو کہ ہمارے رہنما نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا بابرکت وجود ہے، آنحضرت اس مہینے کےدنوں میں روزے سے ہوتے تھے ، راتوں میں نماز پڑھتے تھے، ہمیں بھی توفیق عطا ہو تاکہ انکی سنت باقی رہے۔ 
اگر کوئی جوان ہے اور جسمانی طاقت رکھتا ہے، تو اس سے چاہیے کہ  اس مہینے کے روزوں کو نہ بھولے ، چاہے وہ اس مہینے کے تین دن روزہ رکھے، یہ بھی کافی ہے کیونکہ ہوا گرم ہے،اور موسم، موسم گرما ہے۔ 
شاید مدرسے اور یونیورسٹی کی پڑھائی سے ہماہنگ نہ ہو ، آپ کے مزاج کو  کوئی نقصان نہ پہنچے ، لیکن اگر کوئی بہ اندازہ کافی آرام کرتا ہے تو وہ سحری کر پائے گا، اور اس ماہ کے روزے رکھنا اس کی اس راہ میں  تیزی کا باعث ہوجائے گا کیونکہ ہم صلوات شعبانیہ میں پڑھتے ہیں پیامبر گرامی اسلام شعبان المعظم کے مہینے کے دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں نمازشب کا اہتمام کرتے تھے ،خدا سے التجا کرتے ہیں ، خدایا! ہمیں انکی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .