از قلم: حجۃ الاسلام و المسلمین عبد الرحیم اباذری
ترجمہ و ترتیب: مولانا عباس قمی خان
حوزہ نیوز ایجنسی | ہم ماہِ شعبان کے آخری دنوں میں ہیں۔ یہ مہینہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مہینہ ہے، اسی لیے اسے "رحمت کا مہینہ" کہا جاتا ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ساری دنیا کے لیے رحمت، محبت اور مہربانی لے کر آئے تھے۔
اس مہینے کی ایک خوبصورت دعا "صلواتِ شعبانیہ" ہے، جو امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول ہے۔ یہ دعا روزانہ نمازِ ظہر کے بعد پڑھی جاتی ہے۔
اس دعا میں، نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہلِ بیت علیہم السلام پر درود و سلام بھیجنے کے بعد، ائمہ معصومین (ع) کی عظمت اور مقام کو بیان کیا گیا ہے۔
دعا میں کہا گیا ہے کہ « الْفُلْكِ الْجارِيَةِ فِى اللُّجَجِ الْغامِرَةِ، يَأْمَنُ مَنْ رَكِبَها، وَيَغْرَقُ مَنْ تَرَكَهَا،» "وہ چلتی ہوئی کشتی کی طرح ہیں جو گہرے اور طوفانی سمندروں میں لوگوں کو نجات دیتی ہے۔ جو اس کشتی میں سوار ہوگا، وہ محفوظ رہے گا، اور جو اسے چھوڑ دے گا، وہ گمراہی اور تباہی میں ڈوب جائے گا۔"
اسی طرح، معصومین (ع) کو «الْكَهْفِ الْحَصِينِ، وَغِياثِ الْمُضْطَرِّ الْمُسْتَكِينِ، وَمَلْجَإِ الْهارِبِينَ، وَعِصْمَةِ الْمُعْتَصِمِينَ» "مضبوط پناہ گاہ، بے بسوں کے مددگار، بے آسرا لوگوں کا سہارا اور مشکلات میں گھِرے لوگوں کی حفاظت کرنے والے" کہا گیا ہے۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ائمہ معصومین (ع) نہ صرف دین کے رہنما ہیں بلکہ وہ معاشرے کے کمزور، مظلوم اور بے سہارا لوگوں کے محافظ بھی ہیں۔ جو لوگ کسی بھی وجہ سے دین اور ایمان سے دور ہو گئے ہیں، وہ ان کے ذریعے ہدایت اور نجات پا سکتے ہیں۔
یہ الفاظ نہ صرف عام لوگوں کے لیے نصیحت ہیں بلکہ ہر ایک کو اپنی استطاعت کے مطابق ان ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ معصومین (ع) کا راستہ اختیار کرنا ہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
اگر صلواتِ شعبانیہ کو حکومتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو اس کے خاص مخاطب حکومت کے ذمہ داران اور حکمران ہیں، خاص طور پر وہ حکومتیں جو خود کو اسلام اور اہلِ بیت (ع) سے منسوب سمجھتی ہیں.
حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی معاشی، فلاحی اور سیکیورٹی کی ضروریات کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ غریبوں اور ناداروں کا سہارا بنیں، اور ان لوگوں کو بھی موقع دیں جو حکومت سے ناراض ہیں، تنقید کرتے ہیں یا کسی وجہ سے ملک چھوڑ چکے ہیں، تاکہ وہ اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور اصلاح کے دروازے کھلے رہیں۔
حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اہلِ بیت (ع) کی سیرت کو گہرائی سے سمجھیں اور اسے بغیر کسی انتہا پسندی یا غفلت کے، حالات کے مطابق اپنے ملکی اور بین الاقوامی فیصلوں میں نافذ کریں۔ انہیں نہ تو دین سے آگے بڑھنا چاہیے اور نہ ہی پیچھے رہنا چاہیے، بلکہ اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے۔
صلواتِ شعبانیہ میں کہا گیا ہے: « الْمُتَقَدِّمُ لَهُمْ مارِقٌ، وَالْمُتَأَخِّرُ عَنْهُمْ زاهِقٌ، وَاللَّازِمُ لَهُمْ لاحِقٌ »
"جو اہلِ بیت (ع) سے آگے نکلے وہ گمراہ ہو گیا، جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا، اور جو ان کے ساتھ رہا وہ کامیاب ہوا۔
یہی اصول سیاست، معیشت اور معاشرت میں بھی لاگو ہوتا ہے، تاکہ اسلامی معاشرہ غلط فیصلوں اور سیاسی انحرافات سے بچ سکے۔
اے پروردگار! ماہِ شعبان کے اختتام کو ہمارے لیے برکت والا بنا، ہمارے دلوں میں محبت، اتحاد اور بھائی چارہ پیدا کر، اور ہمیں ماہِ رمضان کی رحمتوں کے لیے تیار کر دے۔آمین
آپ کا تبصرہ