۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
مولانا سید عمار رضا نقوی

حوزہ/ آج کل ایک دینداروں کی ایک نئی مخلوق وجود میں آئی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر تو ایسے نظر آتے ہیں جیسے ان سے بڑا دیندار کوئی نہیں جیسے آج ہی حج و زیارت سے لوٹے ہوں۔ اسٹیٹس بھی مذہبی قسم کے لگائیں گے،حدیثیں پوسٹ کریں گے۔لیکن ذرا ان کی فیسبک لائف سے ہٹ کر ریل لائف(حقیقی زندگی) میں جھانکئے تو معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔خدا ہم سب کو اس دو رنگی سے بچائے۔

تحریر: مولانا سید عمار رضا نقوی نزیل قم ایران

حوزہ نیوز ایجنسی | دوڑتی بھاگتی زندگی، شور و غل،ہنگامہ آرائی، مسائل و مشکلات کا انبار، ڈپریشن، ٹینشن، تھکن سے چور دن اور بستر پر کروٹ بدلتی راتیں، سال بھر اپنے اور اپنے گھر والوں کے پیٹ کے جہنم کی آگ بجھاتے بجھاتے تھکن سے چور جسم و روح کے لیے آغوش رحمت پروردگار میں دو گھڑی سکون پانے کا مہینہ، ماہ مبارک رمضان ہمارے اوپر سایہ فگن ہے۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں بندہ اپنے مہربان خدا کا مہمان ہوتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق یہ مہینہ سب سے افضل مہینہ ہے۔اس کے دن سب سے افضل،اس کی راتیں سب سے برتر اور اس کی گھڑیاں سب سے بہتر ہیں۔اس مہینہ میں سانس لینا جو ایک اضطراری فعل ہے اور جس میں بندہ کا کوئی دخل نہیں وہ بھی تسبیح پروردگار کا درجہ رکھتا ہے۔یہاں تک کہ اس مہینہ میں سونا بھی عبادت شمار ہوتا ہے۔اس مہینے میں عمل مقبول ہے تو دعا ئیں مستجاب۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب یوں ہی حاصل ہو جائے گایا اس عظیم دسترخوان الٰہی سے فیضیاب ہونے کے کچھ اصول اور آداب ہیں؟۔ظاہر ہے دسترخوان جتنا عظیم ہوگا اس کے آداب بھی اتنے ہی عظیم ہوں گے۔اس دسترخوان رحمت سے استفادہ کا طریقہ اور آداب بھی خود رسول اکرم ؐ نے خطبہ شعبانیہ میں بتا دئے ہیں ۔جن میں سے کچھ آداب ہم ذیل میں ذکر کیا کر رہے ہیں:

1۔آپ فرماتے ہیں:اپنے پروردگار سے سچی نیت اور پاکیزہ دل سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں اس مہینے میں روزے رکھنے اور قرآن پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس لئے کہ جو اس مہینے میں مغفرت الٰہی سے محروم رہا اس سے بڑا بد بخت کوئی نہیں ۔گویا رسول پاک کی نظر میں اگر ہمیں ماہ مبارک میں مغفرت حاصل کرنی ہے تو روزے بھی رکھنے ہوں گے اور قرآن پاک کی تلاوت بھی کرنا ہوگی۔

2۔آپ ؐمزید فرماتے ہیں :اپنے بڑوں کا احترام کرو،چھوٹوں سے مہربانی سے پیش آؤ اور صلہ رحم انجام دو۔

3۔اپنے زبان کی حفاظت کرو،آنکھوں اور کانوں کو حرام چیزیں دیکھنے اور سننے سے بچاؤ۔

4۔جو اس مہینے میں اچھے اخلاق سے پیش آئے گا اس کے قدم قیامت کے دن پل صراط پر لغزش کا شکار نہیں ہوں گے۔

5۔جو اس مہینے میں ایک واجب نماز ادا کرتا ہے اسے دیگر مہینوں میں ادا کی جانےوالی ستر نمازوں کے برابر ثواب ملتا ہے۔

6۔ جو ایک آیت کی تلاوت کرے گویا اس نے پورا قرآن ختم کیا۔

7۔ جب امیر المومنین ؑ نے دریافت کیا یا رسول اللہ اس مہینے میں سب سے افضل عمل کیا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا:گناہوں سے دوری۔

رسول اکرم ؐ نے اپنے اس نورانی بیان میں جو آداب بیان فرمائے ہیں ایک بار غور سے انہیں پڑھیں ور پھر اپنے معاشرہ اور اپنی قوم کا جائزہ لیں تو بے حد افسوس ہوتا ہے کہ ہمارا واسطہ دین اور دینی تعلیمات سے بس کچھ رسموں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ایک بڑا طبقہ ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے صحت و تندرستی سے نوازا ہے مگر وہ پھر بھی روزوں سے بھاگتے ہیں۔قرآن پڑھنا جانتے ہیں مگر پورا مہینہ گزر جاتا ہے اور قرآن طاق پر ہی دھرا رہ جاتا ہے۔چھوٹے بڑوں کا احترام نہیں کرتے اور بڑے چھوٹوں کے ساتھ خاص طور سے مسجدوں میں اس طرح پیش آتے ہیں کہ بچہ پھر مسجد نہ آنے کی قسم کھا لیتا ہے۔خاندانی اختلافات اور جھگڑے اس مبارک مہینے میں بھی اسی طرح برقرار رہتے ہیں۔زبان کی حفاظت کا حال تو یہ ہے کہ جب تک کسی کی غیبت نہ کر لیں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔چغل خوری اور جھوٹ سے بھی پرہیز نہیں کیا جاتا۔جہاں تک آنکھوں ور کانوں کی حفاظت کا سوال ہے تو سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ آنے کے بعد گھر کی تنہائی میں بھی انسان بلا جھجک اپنے کانوں اور آنکھوں کو آلودہ کرتا رہتا ہے۔اخلاق کا عالم یہ ہے کہ جو لوگ روزے نہیں رکھتے ان کو تو چھوڑئے روزہ رکھنے والوں کا بھی پارہ بھی ہائی رہتا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے بھڑنے کو تیار نظر آتے ہیں۔قوم میں ایک بد بخت طبقہ ایسا بھی ہے جو سال بھر مسجد میں جھانکنا تک گوارا نہیں کرتا ہے لیکن کچھ لوگوں کی بد بختی کا عالم اس سے بھی سوا ہے وہ اس عظیم مہینے میں بھی اپنے پاک پروردگار کے سامنے سر سجدہ میں رکھنا گوارا نہیں کرتے۔

آج کل ایک دینداروں کی ایک نئی مخلوق وجود میں آئی ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر تو ایسے نظر آتے ہیں جیسے ان سے بڑا دیندار کوئی نہیں جیسے آج ہی حج و زیارت سے لوٹے ہوں۔ اسٹیٹس بھی مذہبی قسم کے لگائیں گے،حدیثیں پوسٹ کریں گے۔لیکن ذرا ان کی فیسبک لائف سے ہٹ کر ریل لائف(حقیقی زندگی) میں جھانکئے تو معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔خدا ہم سب کو اس دو رنگی سے بچائے۔

جہاں تک قوم کے سرمایہ یعنی نوجوانوں کا سوال ہے تو ان کی حالت تو اور ابتر ہے۔پورا پورا دن سوشل میڈیا یا فری فائر جیسے گیمز میں لگے رہتے ہیں۔نمازوں سے مطلب نہ تلاوت کلام پاک سے۔روزے تو والدین خود نہیں رکھنے دیتے۔ارے ابھی تو بچہ ہے روزہ رکھے گا تو صحت خراب ہو جائے گی۔جس نبی اور امام کی محبت کا دم بھرتے ہیں وہ تو فرما رہے ہیں کہ روزہ سے صحت بنتی ہے اور ہم روزہ کو صحت کے لئے مضر سمجھتے ہیں عجیب تماشا ہے !

نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ کب ماہ مبارک آیا کب گزر گیا انہیں کچھ خبر نہیں ۔انہیں تو بس انسٹاگرام،فیسبک اور فری فائر سے مطلب ہے۔اور اب شومی قسمت سے عین ماہ مبارک میں آئی پی ایل(IPL) بھی شروع ہو چکا ہے۔جس میں ہمارے نوجوان صرف اپنا قیمتی وقت ہی ضائع نہیں کرتے بلکہ الگ الگ ٹیموں کی حمایت کے نام پر ایک دوسرے سے بحثم بحثا سے جوتم پیزار تک پر اتر آتے ہیں۔کیا یہ ہماری بد بختی نہیں ہے کہ کھیل کر لطف وہ اٹھا رہے ہیں ،شہرت انہیں مل رہی ہے دولت انہیں مل رہی ہے اور اپنی توانائی اور وقت اور باہمی پیار و محبت کو داؤں پر ہم لگا رہے ہیں۔وقت ملے تو سوچئے گا ضرور!

لیکن یہاں پرہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ اپنے نوجوانوں کی اس حالت کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ہم سے مراد والدین،علما،مبلغین اور ذمہ داران قوم ہیں۔کیا ہم والدین نے بچوں کو ماہ رمضان سے چند روز پہلے بتایا کہ بیٹا ایک عظیم مہینہ آنے والا ہے۔کیا علما اور مبلغین نے خطبات جمعہ اور تقریروں میں ماحول سازی کی۔مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں ماہ مبارک سے ایک ہفتہ پہلے ہی ہم بچوں کو معلوم ہوجاتا تھا کہ کوئی خاص مہینہ یا وقت آنے والا ہے۔مگر اب مغربی کلچر،موبائل،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔نہ ہمارے پاس وقت ہے نہ احساس کہ اپنے بچوں کی صحیح اسلامی خطوط پر تربیت کر سکیں اور انہیں ماہ مبارک اور ماہ محرم جیسے عظیم مہینوں کے متعلق پہلےسے آمادہ کر سکیں۔

نتیجہ

خلاصہ یہ کہ ماہ رمضان ایک عظیم مہینہ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس مہینے کی عظمت کوسمجھیں اور رسول اکرم ؐ اور ائمہ معصومین ؑ کے بیان کردہ آداب کے مطابق اس سے بھرپور استفادہ کریں۔معمولی معمولی باتوں کو عذر شرعی مان کر روزہ ترک نہ کریں۔تلاوت کلام پاک کا اہتمام کریں۔خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنا لیں۔لڑائی جھگڑے دور رہیں۔واہیات سرگرمیوں میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔

آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ ہم اس ماہ رمضان کو اپنے لیے اور اپنے معاشرے کے لیے ایک مثبت تبدیلی کا مہینہ بنائیں گے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .